Urwatul-Wusqaa - Adh-Dhaariyat : 39
فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وَ قَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ
فَتَوَلّٰى : تو وہ پھر گیا بِرُكْنِهٖ : اپنی قوت کے ساتھ وَقَالَ سٰحِرٌ : اور کہنے لگا ایک جادوگر ہے اَوْ مَجْنُوْنٌ : یا مجنون ہے
پھر اس نے مع اپنے اراکین منہ موڑا اور جادوگر اور پاگل ہونے کا الزام لگایا
اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لشکر کو ایسا پکڑا کہ دریا میں ڈبو کر چھوڑا 40 ؎ سنت اللہ شروع سے آرہی ہے کہ انبیاء و رسل کی مخالفت کرنے والے جب مخالفت پر ڈٹ جاتے ہیں اور دلائل کا جواب دلائل سے دینے کی بجائے طاقت ‘ دھونس اور دھاندلی سے دینے لگتے ہیں تو جو مہلت ان کو اللہ رب ذوالجلال والا کرام سے دی جاتی ہے جب وہ پوری ہوجاتی ہے تو ان کا کام بھی تمام کردیا جاتا ہے گویا ان کے اقتدار ‘ ان کی قوت و سطوت اور ان کی طاقت کی صف لپیٹ دی جاتی ہے اور جب ان کے ظلم کا دروازہ بند ہوجاتا ہے تو کوئی آنکھ بھی ان پر نم نہیں ہوتی بلکہ ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور یہ صورت حال اس جگہ بھی وارد ہوئی جب فرعون اور اس کا پورا لشکر دریا کی نذر ہوگیا اور بچی تو صرف فرعون کی نعش سالم بچ گئی کہ بعد میں آنے والوں کے لئے وہ سامان عبرت پیش کرتی رہے۔ یہ کتنا عظیم صانع تھا جو نمودار ہوا لیکن اس صانع عظیم پر کوئی آنکھ بھی پرنم نہ ہوئی اور کسی نے اظہار افسوس تک نہ کیا بلکہ سب کے سب مونہوں میں ایک ہی بات تھی کہ ” خس کم جہاں پاک “ لا ریب وہ قابل مزمت اور قابل ملامت ہی تھا اور ہر طرف سے وہ ملامت کا شکار ہوا۔ یہ فرعون اور موسیٰ (علیہ السلام) کی داستان کے چند اشارات و استعارات تھے اور اس کے بعد عاد قوم اور ثمود قوم کا بانن کیا جائے گا تاکہ عبرت حاصل کرنے والے کسی کی داستان ہی سے عبرت حاصل کرسکیں۔
Top