Urwatul-Wusqaa - Adh-Dhaariyat : 45
فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّ مَا كَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَۙ
فَمَا اسْتَطَاعُوْا : تو نہ ان کو استطاعت تھی مِنْ قِيَامٍ : کھڑے ہونے کی وَّمَا كَانُوْا : اور نہ تھے وہ مُنْتَصِرِيْنَ : بدلہ لینے والے
پھر وہ اٹھنے کی تاب نہ لاسکے اور نہ ہی کسی کی مدد حاصل کرسکے (بلکہ سب کے سب ہلاک ہو کر رہ گئے)
پھر ثمود کی قوم کے لوگ اٹھنے کی طاقت نہ لاسکے اور نہ ہی کسی کی مدد حاصل کر سکے 45 ؎ ثمود قوم کے لوگ اپنے پیشروئوں کی طرح بت پرست تھے بعض جن مرے ہوئے بزرگوں سے ان کو عقیدت تھی۔ ان کے بت تراش کر انہوں نے رکھے ہوئے تھے اور انہیں بزرگوں ‘ پیروں ‘ مرشدوں اور ولیوں کی یاد میں جو بت انہوں نے تراشے ہوئے تھے ان کو معبود سمجھتے تھے اور اس طرح کہ شرک میں وہ مبتلا تھے۔ ان کی اصلاح اور احقاق حق کے لئے ان ہی کے قبیلہ و خاندان سے صالح (علیہ السلام) کو ناصح پیغمبر اور رسول بنا کر بھیجا گیا تھا کہ وہ ان کو راہ راست دکھائیں اور ان کو اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی نعمتیں یاد دلائیں جن سے صبح و شام وہ محفوظ ہوتے رہتے ہیں اور ان پر واضح کریں کہ کائنات کی ہر شے اللہ تعالیٰ کی توحید اور یکتائی پر شاہد ہے اور یقینی دلائل اور مسکت براہین کے ساتھ ان کی گمراہی کو ظاہر کریں اور ان کو بتائیں کہ پرستش و عبادت کے لائق ذات خداوندی کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں خواہ وہ کون ہو ‘ کہاں ہو اور کیسا ہو کیونکہ وہ جو بھی ہوگا مخلوق ہی ہوگا اور مخلوق کبھی پرستش و عبادت کے لائق نہیں ہو سکتا۔ قوم نے صالح (علیہ السلام) کی ایک نہ مانی اور نہ اپنے پروردگار کے حکم کی تعمیل کے لئے دو تیار ہوئے۔ انہوں نے صالح (علیہ السلام) کی پیش کردہ دعوت کو واضح طور پر ٹھکرا دیا اور ان کے کہنے پر چلنے سے غرور کے ساتھ گریز کیا جیسا کہ پیچھے عرض کیا جا چکا ہے کہ صالح (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے وہ اونٹنی جس پر تعلیم و تبلیغ کا کام کرتے تھے اور ثمود والے پہلے ہی اس اونٹنی سے دشمنی رکھتے تھے وہی اونٹنی ان کے عذاب کا نشان مقرر کردی اور ان کو واضح الفاظ میں کہ دیا کہ یہ اونٹنی اللہ کا نشان ہے اگر تم نے اس کو کوئی گزند پہنچائی تو تم کو دھر لیا جائے گا اور تمہارا وہی حال ہوگا جو تم سے پہلے قوم عاد کا ہوا لیکن اس نامراد اور بدبخت قوم نے مشورہ کر کے اس اونٹنی کو قتل کردیا اور اس کے بعد ان کو تین دن کی مزید مہلت دی گئی لیکن وہ مہلت سے فائدہ اٹھانے والے کب تھے۔ تین دن کے بعد صالح (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے ہجرت کر گئے اور باقی قوم کو اللہ تعالیٰ نے تہس نہس کردیا۔ (و ھم ینظرون) اور اس طرح گویا وہ دیکھتے ہی دیکھتے رہ گئے اور اس صفحہ ہستی سے ان کو مٹا دیا گیا۔ اس طرح نہ تو وہ دوبارہ کھڑے رہ سکے اور نہ ہی ان کے وہ مددگار اور حاجت روا جن کی خاطر انہوں نے صالح (علیہ السلام) کی مکالفت کی اور ان کے پیغام کو ٹھکرایا ان میں سے ایک بھی ان کی مدد کے لئے آگے نہ بڑھا اور نہ ہی ان کی مدد کے لئے وہ آگے بڑھ سکتے تھے اس طرح قوم کو بعد میں آنے والوں کے لئے درس عبرت بنا دیا گیا لیکن تعجب ہے کہ کسی قوم نے بھی اپنے سے پہلے گزری ہوئی قوموں کی داستانوں سے عبرت حاصل کرنے کی کوشش نہ کی اور جو صورت پہلوں کی تھی وہی بعد میں آنے والوں کی ہوئی۔ اس کے بعد قوم نوح کا ذکر کیا جانے والا ہے اگرچہ قوم نوح گزشتہ دونوں سے بہت پہلے کی قوم ہے تاہم اس کا تذکرہ بعد میں کیا گیا ہے کیونکہ تذکیر کے لئے ترتیب لازم و ضروری نہیں۔ بس نصیحت کے پیش نظر کبھی کسی قوم کا ذکر اور کبھی کسی قوم کا ذکر بیان کردیا گیا اور قرآن کریم کے واقعات میں یہ بات عام پائی گئی ہے۔
Top