Urwatul-Wusqaa - Adh-Dhaariyat : 4
فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًاۙ
فَالْمُقَسِّمٰتِ : پھر تقسیم کرنیوالے اَمْرًا : حکم سے
پھر وہ جو (اس) اَمر الٰہی (بارش) کو تقسیم کرتی ہیں
قسم ہے ان ہوائوں کے رب کی جو امرالٰہی (بارش) کو تقسیم کرتی ہیں 4 ۔ (المقسمات) اسم فاعل جمع مونث المقسم واحد تقسیم کرنے والی ہوائیں جو اللہ رب ذوالجلال والا کرام کے حکم سے پانی کو تقسیم کرتی ہیں کہ کس علاقہ کو کتنا پانی درکار ہے یا کس علاقہ کے لیے کتنا پانی گرانے اور بہانے کا حکم ہے اس سے کم و بیش اس علاقہ میں پانی نہیں گرایا جاتا بارش کے ذریعہ سے اتنا پانی برسایا جاتا ہے جتنا کہ حکم الٰہی میں کسی علاقہ کا حصہ ہے اور یہ سب احکام اللہ رب کریم کی طرف سے تقسیم کیے جاتے ہیں اور اسی کے حکم سے یہ ہوائیں یہ سارے کام چلارہی ہیں اور اس پابندی کے ساتھ چلا رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور مرضی کے خلاف کسی جگہ ایک قطرہ بھی نہیں برسایا جاتا حکم الٰہی کی اتنی پابندی ہے کہ بادلوں کو دیکھ کر انسان معلوم کرتا ہے کہ بس بارش آئی اور اتنی برسے گی کہ ندی نالے بھر جائیں گے لیکن جب بادل چھٹتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے علاقے ہیں جہاں یہ بادل نہایت گہرے سیاہ رنگ کے چھائے ہوئے ہیں لیکن بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں ٹپکا کہ سب بادل غائب ہوگئے ہیں اور اس کے برعکس ایسا نظر آتا ہے کہ آسمان بالکل صاف ہے ، سورج چمک دمک رہا ہے اور اچانک ایک چھوٹا سا بادل نظر آیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے جل تھل کردیا ادھر زمین کی حالت یہ ہوگئی کہ وہ پانی کو کنٹرول بھی نہ کرسکی اور ادھر آسمان ہے کہ تھتما ہوا نظر نہیں آتا یہ سب کچھ اسی قادر مطلق کی مہربانیاں ہیں کہ اس نے کسی علاقہ کے حصہ میں کیا رکھا ہے اور کی کے لیے کیا ؟ اس حقیقت کو انسان نہیں سمجھتا یہ چار قسم کی شہادتیں پیش کی گئی ہیں اور پھر ان کے اندر جو مضمون پنہاں کردیا گیا ہے اگر سائنس اس کو کھولنا شروع کردے تو یہ کبھی ختم ہونے ہی میں نہ آئے ان چار قسم کے اشاروں یا استعاروں میں اتنا مضمون مخفی ہے کہ اس وقت تک جتنی ہوائوں اور گیسوں کی سائنس وضاحت کرچکی ہے ابھی تک ان چاروں کی وضاحت مکمل نہیں ہوئی ان چاروں کے جو کام گنوائے جاچکے ہیں وہ ایک ہی طرح کے چار مختلف کام ہیں اور ابھی تک ان چاروں کی الگ الگ وضاحت نہیں کی جاسکتی مسلمان سائنس دانوں کا فرض تھا کہ وہ ان اشاروں اور استعاروں پر غور کرتے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی الگ الگ تقسیم کی ہے ان کاموں کی تقسیم کے لحاظ سے ایک ایک پر مکمل بحث کرکے دیکھتے تو ان کو کتنے انکشافات ہوسکتے تھے جو ابھی تک بھی واضح نہیں ہوئے اور قرآن کریم نے جو ان کو الگ الگ بیان کیا ہے تو یہ محض بیکار نہیں کیا بلکہ ان کے اندر بہت بڑے بڑے راز مخفی ہیں ان ہوائوں کے الگ الگ گروپ ہیں جو فضا کے اندر اس طرح اپنا اپنا کام انجام دے رہے ہیں کہ اپنا کام بھی سرانجام دیتے ہیں اور ایک دوسرے گروپ پر اثر انداز نہیں ہوتے فضا کے اندر یقیناً ان کی حدود مقرر ہیں اور ان حدود سے وہ متجاوز نہیں ہوتے ہوا نام کے لحاظ سے بلاشبہ ایک ہے لیکن اپنے اپنے کام کے لحاظ سے ان کے الگ الگ کام ہیں مفسرین کیا کرسکتے تھے انہوں نے صرف ان ہوائوں کی قسموں پر اکتفا کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ بتایا تو وہ یہی ہے کہ ایک بات کو پختہ کرنے کے لیے جو اگے آرہی ہے اللہ رب کریم نے قسم کھا کر بات کی ہے تاکہ سب انسانوں کو یقین آئے کہ ہاں ! ایسا ہوگا اور یہ کہ ہوائوں کی قسم کھائی ہے یا ان ہوائوں کے رب کریم کی۔ لیکن جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے جس کو ہم اللہ کے الفاظ یا اللہ کی باتیں کہہ سکتے ہیں اور دوسری طرف اس کائنات کے اندر اللہ کے افعال بھی ہیں جو اس کلام الٰہی کا کام کہلاتے ہیں گویا اس اس کی تھیوری ہے اور دوسرا اس کا پریکٹیکل اور تھیوری اور پریکٹیکل کبھی آپس میں الگ الگ نہیں ہوسکتے کہ تھیوری کچھ کہے اور کرنے والا کچھ کررہا ہو ایسا ہونا ممکن نہیں اللہ کا کلام اور اللہ کا کام کبھی آپس میں اختلاف نہیں کرسکتا ایک مسلم سائنس دان کے لیے یہ حقیقت اور یہ اصول یاد ہوتا اور اب وہ اس کے مشاہدوں کی طرف بڑھتا اور اس اصول کی روشنی میں وہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتا تو وہ بہت کچھ سیکھ سکتا تھا جو ابھی تک بدستور تشنہ ہے موسمیات والوں کا کام بہت وسیع تھا لیکن افسوس کہ ہمارے پاس انگریزوں کی اختراعی تھیوری موجود ہے اور ہم اسی کے تحت آگے قدم رکھتے ہیں جو بھی رکھتے ہیں اور ہمارے مذہبی پیشوائوں نے اس قرآن کریم کو مردوں کو ثواب پہنچانے کے لیے مختص کردیا اور زندہ کے ہاتھ سے اس کو اس طرح چھین لیا ہے کہ شاید یہ چیز زندوں کی رہنمائی کے لیے اتاری ہی نہیں گئی بلکہ یہ بڑے بڑے سیٹھوں ، بلیکیوں ، ذخرہ اندوزی کرنے والوں ، سودی کا کاروبار کرنے والوں ، سود لینے والوں اور دینے والوں ، غریبوں کا خون چوس چوس کر پینے والوں ، ظلم اور زیادتیاں کرنے والوں ، ڈاکوئوں ، چوروں ، زانیوں ، شرابیوں کو بخشوانے کا ایک نسخہ ان کے ہاتھ اللہ میاں نے دے دیا ہے تاکہ ان کے مرنے کے بعد اس نسخہ سے ان کے باقی ماندہ لوگوں سے رحمتیں وصول کرکے ان کے ان سارے مرے ہوئوں کو جو یہی کرتے کرتے مرگئے بخشوا دیں اور یہ دھندا تو باقاعدہ چل رہا ہے لکنی کوئی نہیں کہتا ، کوئی نہیں جانتا ، کوئی نہیں سنتا کہ یہ کتاب تو اللہ کا کلام ہے اور یہ ساری کائنات اللہ کا فعل اور پھر اس للہ کے فعل کا مشاہدہ کرنا ہے تو اس تھیوری کی مدد سے کرنا چاہیے تھا جو اللہ رب ذوالجلال والا کرام نے محمد رسول اللہ ﷺ کے سینہ اقدس پر نازل کی تھی اور اس میں دنیا کی ساری ترقیوں اور دین کی ساری گھتیوں کا حل مخفی ہے اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کائنات کے اندر موجود ہے اور قرآن کریم نے اس کے لیے کوئی استعارہ یا اشارہ استعمال نہیں کیا کاش کہ سائنس کا طالب علم قرآن کریم کا طالب علم بھی ہوتا اور قرآن کریم کا طالب علم سائنس کا طالب علم بھی ہوتا اور سائنس دان ان خطوط کے تحت ان اصولوں کے تحت جو اللہ نے خود بتائے تھے اس دنیا میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا تو دنیا کا کوئی سائنس دان خواہ روس کا ہوتا یا جرمن کا وہ سائنس دان امریکہ کا ہوتا یا فرانس کا ، وہ سائنس دان انگلستان کا ہوتا یا دنیا کے کسی اور ملک کا مسلم سائنس دان سے کبھی آگے نہ نکل سکتا کیونکہ ایک مسلم سائنس دان کے پاس وہ سنہری اصول موجود تھے جو اس کائنات کے بنانے والے کے بنائے ہوئے تھے وہ اختراعی اور من گھڑت نہیں تھے اور وہ اصول آج بھی قرآن کریم کے اندر موجود ہیں اور بحمد اللہ من و عن موجود ہیں للہ موجود ہیں ، خدا کی قسم موجود ہیں آپ نے یہ سن رکھا ہے کہ قرآن کریم کوئی سائنس کی کتاب نہیں بلکہ تذکیرو نصیحت کی کتاب ہے لاریب یہ کتاب تذکیرو نصیحت کی کتاب ہے لیکن سائنس کو آپ لوگوں نے تذکیرو و نصیحت سے کیسے باہر نکال دیا کیا (ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار) قرآن کریم کی آیت نہیں ہے ؟ اگر ہے اور یقیناً ہے تو (اتنا فی الدنیا) صرف پڑھنے کیلئے اور وظیفہ کیلئے ہے کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ حاشا کلا (فی الدنیا حسنۃ) سائنس ہے جس کا مشاہدات سے تعلق ہے اور سائنس نے آج تک جو کچھ دریافت کیا ہے وہ اس دنیا ہی کے متعلق ہے اور لاریب اس سے دنیا سنورتی ہے اگر اس سے ان لوگوں نے اپنی آخرت برباد کرلی ہے تو اس میں ان کا یہ قصور ہے کہ انہوں نے اس کو محض دنیا کے مشاہدہ تک محدود رکھا اور قرآن کریم کی تھیوری کے مطابق کوشش نہ کی اگر ان کی کوشش اس الٰہی تھیوری کے مطابق ہو تو یقیناً ان کی آخرت بھی سنور جاتی اور وہ آخرت پر یقیناً ایمان لاتے ان چار قسم کی ہوائوں کا ہوائیں کہیں یا ان کو فرشتے قرار دیں ؟ نام کے لحاظ سے نام الگ ہوجائے گا لیکن حقتق کے لحاظ سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑے گا قرآن کریم کی متعین کردہ ایک دریافت کی مراد ہے اور ظاہر ہے کہ جو شخص جس راہ سے تلاش کرے گا اس کو وہی راہ سمجھ میں آئے گی لیکن قرآن کریم کی راہ حقیقی اور اصل راہ ہے اللہ مسلمانوں کو اس راہ پر ڈال دے اور وہ اپنی دناق اور آخرت دونوں کو اس کی رہنمائی میں درست کرنے کی کوشش کریں اور اپنی زندگیوں کو قرآن کریم کے استعارات کے مطابق مشاہدات میں ڈھالنے کی کوشش کریں اور دنیا پر ثابت کردیں کہ ع مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا بلاشبہ جو وعدہ تم سے کیا جارہا ہے وہ سچا ہے جس کو ساری دنیا مل کر بھی جھوٹا نہیں کرسکتی 5 ۔ (توعدون) وعد سے مضارع مجہول کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ تم سے جو وعدہ کیا جاتا ہے لاریب وہ سچا ہے۔ ویسے تو اس وعدہ میں ہر وہ چیز آگئی جس کا انبیاء کرام (علیہ السلام) سے وعدہ کیا جاتا رہا لیکن اس جگہ خاص طور پر جس کا وعدہ کیا گیا ہے وہ قیامت کا روز ہے جس سے مکہ کے لوگ الرجک تھے اور اس پر یقین لانے کے لیے تیار نہ تھے جو وعدہ کیا گیا وہ کیا تھا ؟ یہی کہ تم کو دبارہ زندہ کیا جائے گا اور اس دنیوی زندگی کے بارے میں تم سے بار پرس ہوگی اور تم کو تمہارے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دی جائے گی ہم تم کو بار بارقسم کسے موکد کرکے کہہ رہے ہیں کہ جو وعدہ تم سے کیا گیا ہے وہ بالکل سچا ہے گر تم نے آخرت سے بےنیاز ہو کر اعمال کیے تو اخرت میں پکڑ لیے جائو گے اور جب ہم تم کو پکڑ لیں گے تو نہ تمہارا کوئی سفارشی سفارش ہی کرسکے گا اور نہ ہی تم کو چھوڑا جائے گا اور یہ دنیا کے سارے تعلق و اسباب ٹوٹ جائیں گے نہ ہی کوئی شخ تمہارے کام آئے گا۔
Top