Urwatul-Wusqaa - At-Tur : 20
مُتَّكِئِیْنَ عَلٰى سُرُرٍ مَّصْفُوْفَةٍ١ۚ وَ زَوَّجْنٰهُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍ
مُتَّكِئِيْنَ : تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے عَلٰي سُرُرٍ : اوپر تختوں کے مَّصْفُوْفَةٍ ۚ : صف باندھے ہوئے وَزَوَّجْنٰهُمْ : اور بیادہ دیں گے ہم ان کو بِحُوْرٍ عِيْنٍ : ساتھ سفید عورتوں کے، بڑی آنکھوں والی
وہ بچھے ہوئے تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اور بڑی آنکھوں والی حوروں کو ہم ان کی بیویاں بنائیں گے
وہ بچھے ہوئے تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اور ہم عمر رانیاں ان کے ساتھ ہوں گی : 20: دنیوی زندگی میں انسان جس چیز کو انعام و اکرام اور لطف اندوز ہونے والی چیزیں سمجھتا ہے بلکہ جن سے لطف اندوز ہوتا ہے ان چیزوں کا ذکر جب اس کے سامنے کیا جاتا ہے تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں ہوتی اور پھر جب وہ چیزیں اس کو مل جاتی ہیں اور وہ فی الواقع ان سے لطف اندوز ہوتا ہے تو اس وقت ان کی اصلیت کھل کر اس کے سامنے آجاتی ہے اور وہ گویا خواب سے نکل کر مشاہدہ میں آجاتا ہے اور یہی بات اس آخرت کی زندگی کی ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں جن چیزوں سے انسان لطف اندوز ہوتا ہے اگر ان چیزوں کے علاوہ اس کو کوئی چیز سمجھانا ہو تو وہ ہرگز ہرگز سمجھ نہیں سکتا اس لیے قرآن کریم نے انہی باتوں میں آخرت کی زندگی کے انعامات کا ذکر کیا ہے اور اس کی تفصیل کی ہے اور ہم نے اس کی وضاحت پیچھے سورة الصافات کی آیت 42 تا 50 اور سورة الدخان کی آیت 51 تا 57 میں کردی ہے وہاں سے ملاحظہ کرلیں۔ زیر نظر آیت میں بھی فرمایا گیا ہے کہ وہ تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے آرام و سکون سے بیٹھے ہوں گے اور ہم کشادہ آنکھوں والی رانیاں اور ان کے جوڑ کی ان کو ددے دیں گے اور بلاشبہ مرد عورت کے لیے اور عورت مرد کے لیے سکون کا باعث ہے اور خصوصاً اس وقت جب کہ مزاج بھی ایک جیسے ہوں اور دونوں ایک دوسرے کا احترام کرنے والے ہوں کہ ایک بات کہے اور دوسرا کان لگا کر سنے وہ ایسی روکھی پھیکی نہ ہو کہ دوسرے سنتے ہی برداشت نہ کرسکے اور جنت میں تو دنیا کی کوئی مشکل حائل ہی نہ ہوگی وہاں تو ایک دوسرے کی رضا ومرضی کی تلاش کے سوا کوئی کام ہی نہیں ہوگا کیونکہ دنیا کی ہیچ کھیچ وہاں موجود ہی نہ ہوگی اور وہ زندگی ایسی پاکیزہ زندگی ہوگی کہ اس کا تصور اس دنیا میں رہنے والے نہیں کرسکتے۔
Top