Urwatul-Wusqaa - At-Tur : 36
اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَؕ
اَمْ خَلَقُوا : یا انہوں نے پیدا کیے السَّمٰوٰتِ : آسمان وَالْاَرْضَ ۚ : اور زمین بَلْ لَّا يُوْقِنُوْنَ : بلکہ وہ یقین نہیں کرتے
کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ؟ (حقیقت یہ ہے کہ) وہ یقین نہیں کرتے
کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ یقین نہیں کرتے 36 ؎ قرآن کریم میں آپ پیچھے پڑھتے چلے آ رہے ہیں کہ کفار مکہ سے جب بھی پوچھا گیا کہ بتائو اس آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ تو انہوں نے کہا کہ اللہ نے۔ اس طرح جب بھی ان سے پوچھا گیا کہ تمہارا خالق کون ہے ؟ تو انہوں نے کہا اللہ ! جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کائنات کا نظام کون چلا رہا ہے ؟ تو انہوں نے کہا اللہ۔ اس کی مکمل وضاحت غزوہ الوثقیٰ جلد ہفتم سورة العنکبوت آیت 61 ‘ 63 پھر سورة لقمان کی آیت 25 میں پھر سورة الزمر کی آیت 8 میں اور پھر سورة الزخرف کی آیت 9 میں اور 87 میں گزر چکی ہے اور ہر بار پہلے ان سے سوال کیا گیا ہے اور انہوں نے ہر سوال کا جواب اللہ ہی دیا ہے تو زیر نظر آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ تعجب ہے ان لوگوں پر کہ اعتراف بھی کرتے ہیں اور ایمان بھی نہیں لاتے۔ اب اس کی وضاحت کی جا رہی ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟ فرمایا جا رہا ہے کہ یہ محض اس لئے کہ وہ جب (لیقولن اللہ) کے الفاظ محض رسما زبان سے ادا کرتے ہیں کہ اللہ ان کا خالق ہے اور وہی زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا ہے لیکن ان کے دلوں میں کوئی ایمان اور یقین نہیں ہے اگر یقین رکھتے تو ان سے کبھی اس طرح کی حرکت سرزد نہ ہوتی۔ جب بھی کوئی شخص زبان سے کچھ کہتا ہو اور اس کا عمل کچھ بتا رہا ہو تو اس کے اندر جتنا تضاد ہوگا اتنا اس کا ایمان کچا ہوگا جو انہوں نے محض دیکھا دیکھی قبول کرلیا ہوا ہے حالانکہ ان کے دلوں میں ایمان نہیں جما اور نہ ہی پختہ ہوا ہے۔
Top