Urwatul-Wusqaa - At-Tur : 42
اَمْ یُرِیْدُوْنَ كَیْدًا١ؕ فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا هُمُ الْمَكِیْدُوْنَؕ
اَمْ يُرِيْدُوْنَ : یا وہ چاہتے ہیں كَيْدًا ۭ : ایک چال فَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا : تو وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا هُمُ الْمَكِيْدُوْنَ : وہ مکر کیے گئے ہیں
کیا وہ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں ؟ تو کافر خود ہی اپنے دام فریب میں پھنس کر رہ جائیں گے
کیا وہ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں ؟ اگر ایسی بات ہے تو وہ خود ہی فریب میں پھنس جائیں گے 44 ؎ (کیدا) کی اصل ک ی د ہے۔ (مکرا) کی اصل م ک ر ہے۔ دونوں لفظ معنوں کے لحاظ سے یکساں ہیں اور دونوں ہی مذموم اور محمود معنوں میں استعمال ہوتے ہیں دراصل ان دونوں ہی کے معنی ” میف تدبیر “ کے صحیح ہیں۔ اب غور کرو گے تو سمجھ جائو گے کہ ہر مخفی تدبیر نہ تو محمود ہوتی ہے اور نہ ہی مذموم۔ ہاں ! یہ صحیح ہے کہ مخفی تدبیر بھی لفظ عربی ہی کا ہے جو زیادہ تر محمود معنوں میں استعمال ہے لیکن جس طرح ” مخفی تدبیر “ زیادہ تر معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (کید) اور (مکر) کا لفظ زیادہ تر مذموم معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کے معنی مترجمین نے کید اور مکر ہی کے کردیئے ہیں اور کبھی کبھی اور کہیں کہیں جہاں زیادہ ہی مذموم معنی مراد ہو تو دائو ‘ فریب ‘ مکاری ‘ دھوکا ‘ دغا اور جھوٹ جیسے الفاظ سے بھی ان کے معنی کردیئے ہیں کیونکہ انہی معنوں میں یہ زیادہ تر استعمال ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ دونوں لفظ اردو میں بھی اسی طرح استعمال ہوتے ہیں جس طرح عربی میں ‘ فرق صرف یہ ہے کہ اردو میں ان کے معنی مذموم ہی متعارف ہیں محمود معنوں میں ان کا استعمال اردو زبان میں نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اردو زبان میں ترجمہ کرتے وقت مترجمین نے ان کو اسی طرح رہنے دیا تو آج ان دونوں الفاظ کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے تو ایک بار ترجمہ پڑھنے والا چونک جاتا ہے اور پھر اس کو جس طرح سمجھایا جاتا ہے اس کے دماغ میں وہ بات نہیں بیٹھتی۔ لیکن اگر محمود معنی مراد لیتے وقت ان کا ترجمہ ” مخفی تدبیر “ سے کردیا جائے تو آدمی کچھ مطمئن ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی زبان ان دونوں لفظوں کو مکروہ معنوں میں زیادہ استعمال کرتی ہے۔ ان دونوں لفظوں کے ساتھ ایک لفظ ” استد راج “ کا بھی ہے جس کے دونوں معنی صحیح یعنی مذموم اور محمود ہیں کیونکہ مدارج درجات جس طرح نیکی اور خوبی میں ہیں اسی طرح برائی اور ناخوبی میں بھی لیکن چونکہ یہ لفظ زبان زد خواص و عام نہیں اس لئے اس کا استعمال جن معنوں میں کردیا جائے برا معلوم نہیں ہوتا۔ اب اس سارے مضمون کا اختصار یہ ہے کہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جب ان الفاظ کا استعمال اللہ رب ذوالجلال والا کرام کی طرف ہوتا ہے تو ان کے معنی ہمیشہ محمود ہی ہوتے ہیں مذموم کبھی نہیں ہوتے اور ان کو ” مخفی تدبیر “ اور ” تدبیر متعین “ ہی کے معنوں میں سمجھنا چاہئے۔ زیر نظر آیت میں چونکہ لفظ (کید) کا استعمال ہوا ہے اسی نسبت سے اس کی وضاحت کرنا پڑی چونکہ قرآن کریم میں اس مادہ کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی بولے گئے ہیں۔ مثلاً (کدنا) (12 ‘ 76) (اکید) (68 ‘ 16) (کیدی) (7 ‘ 183) وغیرہ وغیرہ۔ زیر نظر آیت میں چونکہ کفار و مخالفین کے کید کا ذکر ہے لہٰذا اس جگہ یہی معنی صحیح ہیں کہ یہ لوگ یعنی مخالفین و معاندین کوئی چال چلنا چاہتے ہیں۔ کوئی مکرو فریب کرنا چاہتے ہیں ‘ کسی طرح دھوکا اور دغا کرنے کی سوچ سوچتے ہیں تو کیا ہے ؟ اس طرح کی جو چال بھی یہ لوگ چلیں گے اور جو مکر و فریب بھی کریں گے ‘ جس طرح بھی دھوکا اور فریب کرنے کی سوچ سوچیں گے اسی کے نتیجہ میں (ھم المکیدون) وہ خود ہی ہلاک ہوں گے۔ اس کا وبال انہیں پر پڑے گا۔ وہ خود ہی اس کی سزا میں گرفتار ہوں گے۔ وہ خود ہی دائو میں پھنس کر رہیں گے۔ وہ چال الٹی انہی پر پڑے گی۔ اس طرح گویا یہ بات بطور پیش گوئی بیان کی گئی ہے جو حرف بہ حرف پوری ہو کر رہی ہے حالانکہ یہ جب الفاظ کہے گئے تھے اس وقت ان کو سن کر وہ لوگ مذاق اڑاتے تھے کیونکہ ان کو کیا معلوم تھا کہ جن نظریات و عقائد کی آج ہم حفاظت کر رہے ہیں اور کفر و اسلام کا مقابلہ جس طرح آج ہر دیکھنے والے کو انتہائی نا مساویانہ دکھائی دے رہا ہے چند سال کے بعد بالکل اس کے برعکس ہوجائے گا اور یہ پوری قوم انہی نظریات و عقائد کو مان چکی ہوگی اور جو تسلیم نہیں کریں گے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہو کر رہ جائیں گے۔ اسلام کی زبان میں اس کو تحدی اور ہماری زبان میں اس کو ” چیلنج “ کے لفظ سے ادا کیا جاتا ہے اور معجزہ کے لئے یہ بات لازم و ضروری ہے ۔ معجزات کے شیدائی جو اپنے وہمی مفروضوں اور من گھڑت باتوں کو معجزات قرار دینے کے عادی ہیں جو خود ہی ایک بات کو وہمی مفروضہ کے طور پر اچنبھا بناتے ہیں اور پھر جب اس کا کوئی جواب ان کو نہیں آتا تو اس کا نام معجزہ رکھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ قرآن کریم نے جو انبیاء و رسل کے حالات بیان کرتے وقت استعارے ‘ اشارے ‘ محاورات و ضرب المثال بیان کی ہیں اب سب کے لفظی معنوں پر بحث کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ ان تشبیہات ‘ استعارات ‘ محاورات اور ضرب الامثال کے لفظی معنی کسی ادب و زبان میں بھی نہیں کئے جاتے بلکہ ان کا مفہوم ہی لیا جاتا ہے جو قائل کی اصل مراد ہوتا ہے۔ حالانکہ علمائے اسلام نے معجزات کی بحث میں خود یہ اصول وضاحت سے بیان کیا ہے کہ معجزہ کے لئے تحدی لازم ہے۔ ہماری کتاب میزان المعجزات میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے اور اس جگہ بھی ہم نے اشارہ کردیا ہے اگر کوئی دیکھنا چاہے تو محولہ کتاب سے دیکھ سکتا ہے۔ بہرحال اللہ رب ذوالجلال والا کرام نے آپ ﷺ کے مکی دور ہی میں اس بات کی تحدی بیان کردی اور صاف صاف کہہ دیا کہ ہمارے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو نیچا دکھانے والے جو کچھ بھی چالیں چلیں گے اور جو جو بھی مخفی تدبیریں کریں گے ان سب کا وبال عنقریب انہیں لوگوں پر پڑے گا اور شکست دینے والے عنقریب شکست کھا جائیں گے۔ پھر کیا ہوا ؟ یہی کہ دنیا نے دیکھا جو کچھ کہا گیا تھا وہ حرف بہ حرف پورا ہوا اور یہ معجزہ آپ ﷺ کے ہاتھ پر دکھایا گیا جو ان سارے معجزات سے بڑا معجزہ ہے جو دوسرے انبیاء کرام اور رسل عظام ﷺ کے ہاتھوں پر ظاہر ہوئے لیکن افسوس کہ ناقدر شناسوں نے اس کو معجزہ کے طور پر کبھی بیان ہی نہیں کیا۔
Top