Urwatul-Wusqaa - At-Tur : 49
وَ مِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْهُ وَ اِدْبَارَ النُّجُوْمِ۠   ۧ
وَمِنَ الَّيْلِ : اور رات کے اوقات میں سے فَسَبِّحْهُ : پس تسبیح کیجیے اس کی وَاِدْبَارَ النُّجُوْمِ : اور ستاروں کے پلٹنے کے وقت
اور رات میں اس کی پاکیزگی بیان کیا کریں اور تاروں کے غروب ہونے کے بعد بھی
رات کو بھی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کریں اور تاروں کو غروب ہونے کے بعد بھی 49۔ دنیا کی کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے کیا گیا مصیبتیں اٹھانا پڑتی ہیں اگر اس بات کا پتہ چلان ہو تو دنیا کے کسی بادشاہ کا تذکرہ پڑھ کر دیکھ لو لیکن اس میں چونکہ صرف ناموری مقصود ہوتی ہے اس لئے اس راہ میں شکست دینا اور شکست کھانا دونوں کا احتمال موجود ہوتا ہے تاہم اس کے لئے سارا انحصار مادی دنیا پر ہوتا ہے کہ فوج اکٹھی کرو اور دنیا کے سرو سامان ایک دوسرے سے بڑھ کر کرو۔ چالیں چلنے اور دھوکہ و فریب کرنے میں مہارت حاصل کرو لیکن نبوت و رسالت کا تعلق خالصتاً باللہ ہوتا ہے اور یہاں اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ہوتی ہے۔ ملک حاصل کرنا اور حکومت کرنا اصل مقصود نہیں ہوتا اس لئے یہاں کوئی کام بھی ایسا نہیں کیا جاتا جس کا نتیجہ صرف اور صرف ملک گیری ہو یہی وجہ ہے کہ تم جب بھی کسی نبی و رسول کا تذکرہ پڑھو گے تو تم کو معلوم ہوگا کہ نبوت و رسالت میں اصل چیز توحید الٰہی اور یوم آخرت کے عقیدہ کو ماننا اور تسلیم کرنا ‘ برائیوں سے اجتناب اور نیکیوں کی تلقین کا ذکر آتا ہے اور پھر نبی و رسول کام کام صرف پیغام پہنچانے کی حد تک محدود ہوتا ہے۔ ہاں ! اس پیغام پہنچانے میں جو مزاحمت ہوتی ہے اس کو دور کرنا اور اس کا دفاع اخلاق و کردار کے ہتھیار سے کرنا لازم ہوتا ہے لیکن جب مخالفین حلقہ تنگ کرتے چلے جائیں تو آخرکار جہاد کرنا ہوتا ہے گویا ساری منزلیں طے کرنے کے بعد جنگ ناگزیر ہوجائے تو جان حاضر کرنا ضروری و لازم ہوجاتا ہے۔ زیر نظر آیت اور گزشتہ آیت دونوں کا مضمون ایک ہے اس پر غور کرو کہ ظالموں کے ظلم کا دفاع کس طریقہ سے کیا جا رہا ہے۔ فرمایا : ظالم ظلم کر رہے ہیں اور آپ ﷺ کو اے پیغمبر اسلام ! اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو سوئی کے ناکے سے گزارنے کی اسکیمیں کر رہے ہیں ہم ان کو بھی دیکھ رہے ہیں اور آپ ﷺ کو بھی لیکن اس کے باوجود ان کے ظلم و زیادتی کو برداشت کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ آپ ﷺ اس غم اور دکھ کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کا ہتھیار استعمال کریں اور اللہ تعالیٰ کی یاد میں کھڑے ہوں اور جب بھی کھڑے ہوں تو اپنے رب کی حمد اور اس کی پاکیزگی بیان کریں اس طرح ذکر الٰہی سے جو قوت پیدا ہوتی ہے اس وقت کو جمع کرنے میں لگے رہیں اور ان مخالفین کی زیادتیوں کو برداشت کرتے چلے جائیں۔ حالات ہماری نظر میں ہیں اور سب کچھ ہم دیکھ رہے ہیں آپ ﷺ کی اس تسبیح وتحمید سے جو قوت آپ ﷺ کے اندر پیدا ہوگی وہی قوت آپ ﷺ کے مخالفین و معاندین پر اس طرح گرے گی جس طرح آسمانی بجلی گرا کرتی ہے۔ بس آپ ﷺ جب لوگ سوئے ہوں رات کو اٹھ کر اللہ کی حمد و تسبیح کے گیت گائیں اور خصوصاً اس وقت بھی جب ستارے ڈوب رہے ہوں۔ اس سے ان شاء اللہ اسلام کی فجر طلوع ہوجائے گی کفر کی رات گا سارا اندھیرا غائب ہوجائے گا گویا کفر کی رات ختم ہوجائے گی اور اسلام کا سورج طلوع ہوجائے گا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ جو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا وہی ہوا۔ یہ سورت مکی سورتوں کے آخری دور کی سورت ہے اس کے بعد جلد ہی ہجرت کا حکم آپ کو مل گیا اور ہجرت کے ساتھ کفر کی رات چھٹ گئی اور اسلام کی فجر طلوع ہوگئی اور فجر ہونے کے بعد کتنی دیر لگتی ہے کہ سورج نظر آنے لگتا ہے۔ (ادبار) کی اصل دب رہے جس کے معنی پیٹھ پھیرنے کے ہیں اور یہ بات مشاہدہ میں ہے کہ فجر طلوع ہوتے ہی ستارے پیٹھ پھیرنا شروع کردیتے ہیں جوں جوں صبح صادق کی روشنی بڑھتی جاتی ہے ستاروں کے غروب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور ہجرت کے بعد صبح صادق ہوتے ہی صبح کی با جماعت نماز کا آپ ﷺ نے حکم دیا جو تا قیامت اسی طرح بدستور قائم و دائم رہے گا اور مزید وضاحت کے لئے سورة (ق) کی آیت 39 ‘ 40 کی تفسیر بھی دیکھ لیں کہ یہی مضمون وہاں بھی بیان ہوا ہے۔ اور اسی مضمون پر ہم سورة (الطور) کی تفسیر کو ختم کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہم کو صلوٰۃ تہجد اور صبح صادق کے ہوتے ہی فجر نماز با جماعت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ سبحانک اللھم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الہ غیرک۔ عبدالکریم اثری 23۔ فروری 1288
Top