Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 13
وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ
وَلَقَدْ رَاٰهُ
: اور البتہ تحقیق اس نے دیکھا اس کو
نَزْلَةً
: اترنا
اُخْرٰى
: ایک مرتبہ پھر
اور اس کو جو اس نے ایک بار اور بھی دیکھا
اور اس کو تو اس نے ایک بار اور بھی دیکھا 13 ؎ (زاہ) اس نے اس کو دیکھا رای روبہ سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ‘ ضمیر واحد مذکر غائب۔ (نزلۃ) ایک مرتبہ اترنا (مصدر) (اخری) دوسری ‘ پچھلی اخر اور اخر دونوں کی مؤنث آخری آتی ہے۔ اس لئے دونوں معنی ہو سکتے ہیں لیکن اس جگہ (اخر) کی مونث ہے اس لئے معنی ہیں دوسری۔ اس نے اس کو دیکھا۔ اس نے ‘ کس نے ؟ محمد رسول اللہ ﷺ نے دیکھا۔ کس کو دیکھا ؟ نزول قرآن کو دیکھا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کو دیکھنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا نہ آپ ﷺ نے کبھی اس کا مطالبہ کیا کہ میں اللہ کو دیکھوں اور نہ ہی آپ ﷺ نے کبھی فرمایا کہ میں نے اللہ کو دیکھا بلکہ اللہ کے متعلق شروع ہی سے یہ تصور موجود تھا کہ اللہ رب ذوالجلال والا کرام ان آنکھوں سے دیکھی جانے والی چیز نہیں اور اس دنیا میں کسی کی آنکھ بھی اللہ رب کریم کی ذات کو نہیں دیکھ سکتی اور جبریل (علیہ السلام) کی معیت میں آپ ﷺ تشریف لے گئے تھے کہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام دیکھی جانے والی چیز نہیں اور اس دنیا میں کسی کی آنکھ بھی اللہ رب کریم کی ذات کو نہیں دیکھ سکتی اور جبریل (علیہ السلام) کی معیت میں آپ ﷺ تشریف لے گئے تھے اور اس کی جو بھی صورت تھی وہ لاریب وہی تھی جس سے آپ ﷺ متعارف تھے کیونکہ کم و بیش پانچ سے دس سال تک کا عرصہ اس کے ساتھ تعارف ہوئے گزر چکا تھا اور اس دوران وہ سینکڑوں بار آپ ﷺ سے ملاقات کرچکا تھا پھر اس کو دیکھنے کے لئے (افق اعلیٰ ) پر جانے کی کیا ضرورت تھی ؟ ہاں ! قرآن کریم کا نزول پہلی بار غار حرا میں آپ ﷺ کو نظر آیا جب آپ ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا تھا کہ (اقرا) پڑھو اور ظاہر ہے کہ اس نزول قرآن کے وقت کوئی پڑھنے کی چیز آپ ﷺ کے سامنے پیش کی گئی تھی جس کے باعث آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ” میں پڑھا ہوا نہیں ہوں “ (ما انا بقاری) پھر جب وحی الٰہی کا سلسلہ شروع ہوا تو جبریل نے اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے حکم سے آپ ﷺ کے سامنے وحی کو پڑھا اور اس کے پڑھنے سے آپ ﷺ کے دل میں نقش ہوگئی اور زبان سے اس طرح چلنے لگی جس طرح کوئی دیکھ کر چیز پڑھی جاتی ہے یا زبانی یاد ہوجانے والی چیز کو پڑھا جاتا ہے لیکن اس دفعہ اسی طرح جس طرح پہلی بار غار حرا کے اندر کسی چیز پر تحریر آپ ﷺ کے سامنے پیش کی گئی تھی وہ احکام جو آپ ﷺ کے سامنے اتارے گئے اس طرح گویا دوسری بار آپ ﷺ نے قرآن کریم کے احکام کو اس طرح نازل ہوتے دیکھا اور اسی طرح گزشتہ آیت میں بلانے والے یعنی رب کریم ‘ بلائے گئے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ اور بلا کر لانے والے یعنی جبریل (علیہ السلام) کا ذکر کیا جا رہا تھا اور اب زیر نظر آیت میں قرآن کریم کا ذکر بھی آگیا جو آپ ﷺ پر مسلسل نازل ہو رہا تھا لیکن اس نزول میں اور اس نزول میں جو پہلی بار ہوا تھا ایک خاص فرق چلا آ رہا تھا اور اس مقام پر پہنچ کر دوسری بار پھر نزول قرآن کا وہ منظر آپ ﷺ کو دکھایا گیا جو اس سے پہلے ایک بار آپ ﷺ دیکھ چکے تھے اور یہ دوسری بار دکھایا گیا تھا۔ لاریب اس رائے کا کسی نے اظہار نہیں کیا بلکہ دو ہی رائیں اس سے قبل ہمارے سامنے موجود تھیں ایک یہ کہ جبریل (علیہ السلام) کو محمد رسول اللہ ﷺ نے اس جگہ پہنچ کر دوسری بار اس کی اصل صورت میں دیکھا لیکن یہ ” اس کی اصل صورت “ کے الفاظ کہاں سے آئے کچھ معلوم نہیں کہ یہ پہلی بار کس نے استعمال کئے ؟ ہاں ! یہ الفاظ نبی اعظم و آخر ﷺ سے منقول نہیں ہیں۔ دوسری بات جو سمجھی گئی وہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے دیکھنے کی تھی اور پھر اس میں بھی شروع سے اختلاف چلا آ رہا تھا کہ ایک فریق جس میں سیدہ عائشہ ؓ اور دوسرے صحابہ کرام ؓ بھی شامل تھے کہ اللہ تعالیٰ دیکھی جانے والی چیز نہیں بلکہ قرآن کریم نے خود اس کی وضاحت کردی ہے کہ (لا تفر کہ الابصار و ھو یدرک الابصار) اس لئے اللہ تعالیٰ کی ذات تو مراد ہو ہی نہیں سکتی اس لئے اس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں اور پھر جب ان کو یا بعد میں آنے والوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جبریل آپ ﷺ کے پاس آتے ہی رہتے تھے تو اس کے درمیان ” اصل صورت “ کا اضافہ کردیا تاکہ وہ اعتراض ختم ہوجائے جو اس پر وارد ہوا اور بعض نے اللہ تعالیٰ کی روایت کا فتویٰ دے دیا اگرچہ وہ اس کی وضاحت نہ کرسکے اس لئے انہوں نے اس پر بحث کرنا حرام قرار دے کر اپنا پیچھا چھڑایا لیکن بعض نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کو دل پر محمول کیا اور توجیہ یہ پیش کی کہ قرآن کریم نے آنکھوں سے دیکھنے کی نفی کی ہے دل سے دیکھنے کی نفی نہیں کی لہٰذا اس جگہ دیکھنے سے مراد دل کا دیکھنا ہے اور پھر بعض نے یہی قلب کا دیکھنا بیان کیا اور بعض نے کشف کا دیکھنا مراد لیا اور بعض نے رویا کا دیکھنا بیان کیا حالانکہ کشف ہو یا رئویا دونوں ہی صورتوں میں قرآن کریم کے حکم کے خلاف نظر آتا ہے اور اس میں اس طرح کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ ہم نے جو کچھ مراد لیا ہے اس پر اگرچہ بزرگوں کی مہر ثبت نہیں ہے یعنی نہ گزشتہ بزرگوں کی اور نہ موجودہ بزرگوں کی اس لئے ہم اس کو کسی کی طرف منسوب کرنا بھی گناہ سمجھتے ہیں اس تفہیم میں اگر ہم سے گناہ ہوا ہے تو اللہ سے معافی کے طلب گار ہیں اور ہمیں پورا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیت سے واقف ہے جس طرح بہت سی باتیں اور ہم نے کہہ دی ہیں اس کو بھی آزادی کے ساتھ کہہ دیا ہے اگر بات یہی درست ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے ہمارا اس میں کوئی کمال نہیں غور و فکر سے جو بات ہمارے دل میں جم گئی ہم نے اس کو بیان کردیا۔ یہ دیکھنا کہاں دیکھنا تھا ؟ (سدرۃ المنتہیٰ ) کے پاس 14 ؎ (سدرۃ) سدر ایک درخت ہے جس کو ہماری زبان میں بیری کا درخت کہتے ہیں ‘ کانٹے دار ہوتا ہے ‘ پیوند کاری کے کام آتا ہے اور پیوند لگنے سے اس میں طرح طرح کی تبدیلیاں پیدا ہوجاتی ہیں نہایت گھنا سایہ دیتا ہے۔ پھل اس کا بہت عمدہ اور لذیذ ہوتا ہے۔ اس کے درخت بہت بڑے بڑے بھی ہوتے ہیں اور اس کی اقسام بھی بیشمار ہیں اس جگہ اس کا ذکر کس نسبت کی وجہ سے کیا گیا ہے ؟ عالم بالا اور عالم آخرت کی بات ہے جس کا اصل علم اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے سوا کسی کو نہیں ہے جتنے پھل دار درخت ہیں ان میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ پھل دینے والا اور سب سے زیادہ سایہ دینے والا ہے۔ صرف سائے کے کام آنے والے درختوں میں بعض ایسے درخت ہیں جو بہت بڑے ہیں اور پھل دار وہ نہیں ہوتے یہ ایک وصف کہ پھل دار ہونے کے باوجود اتنا بڑا اور اتنا گھنا سایہ دینے والا کوئی دوسرا درخت نہیں بشرطیکہ کسی اچھی جنس سے تعلق رکھتا ہو اور اس کو ماحول اچھا میسر آئے ورنہ جھائو اور جھاڑیوں ہی کی شکل میں زیادہ تر پایا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے اس کو ناکارہ درختوں میں شامل کیا ہے اور بہت کارآمد درختوں میں بھی جو اہل جنت کو جنت میں میسر آئیں گے۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ (جنھن ذواتی اکل خمط وائل و شی من سدر قلیل) (34 : 16) ” دو اور باغ بدل دیئے جن میں تلخ میوے اور جھائو اور کچھ بیریاں تھیں۔ “ ظاہر ہے کہ اس جگہ (سدرۃ ) کو جھائو اور جھاڑیوں میں شامل کیا گیا ہے خواہ اس کی جنس اچھی نہ ہوگی۔ لیکن دوسری جگہ جنتیوں کو جو پھل پیس کئے جائیں گے ان میں بھی اس کو شامل کیا گیا ہے خواہ اس کی جنس اچھی نہ ہوگی۔ لیکن دوسری جگہ جنتیوں کو جو پھل پیش کئے جائیں گے ان میں بھی اس کو شامل کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے : (ما اصحب الیمین ‘ فی سدر مخضود ‘ وطلح منضود) دائیں والوں کی کیا ہی اچھی حالت ہے کہ وہ بیریوں میں ہوں گے جن کے کانٹے نہیں اور کیلے تہ بہ تہ “ ان کے لئے پیش کئے جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت اونچے درجے کے پھلوں میں سے نہ سہی لیکن درمیانہ درجہ کے پھلوں میں اس کو اولیت دی گئی ہے جو اس کے پھل کی اچھائی پر دلالت ہے۔ (سدرۃ) واحد ہے جس کی جمع سدر ہے۔ مفسرین نے اس درخت پر جو بحث کی ہے اور روایات میں اس کے متعلق جو کچھ آیا ہے سب کو جمع کرنے سے بھی کوئی ایسی بات سامنے نہیں آتی جو حتمی طور پر کہی جاسکے اس لئے ہم ان سارے بیانات کو درج کرنے کی بجائے اس صاف بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے یہ انسانوں کے علم میں آنے والی چیز نہیں اس لئے اس کو (سدرۃ المنتہیٰ ) کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے گویا یہ وہ حد ہے جس سے آگے انسان کے علم کی رسائی نہیں ہے جو علوم بھی ظاہر ہوں گے ان کا اختتام اس جگہ ہوگا اس سے آگے کا انسان کو کچھ علم نہیں ہو سکے گا اس لئے اس کو چھٹے یا ساتویں آسمان کی آخری حد قرار دیا گیا ہے۔ ہاں ! اس سے یہ اشارہ ضرور نکلتا ہے کہ آسمانوں میں یعنی ان بلندیوں اور فضائوں میں ابھی بہت کچھ پوشیدہ ہے جس کا ظاہر ہونا باقی ہے اور یہ بھی کہ اس کا ظاہر ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ استعارات و اشارات موجود نہ ہوتے تو یہ ترقیاں جو روز افزوں ہوتی چلی جا رہی ہیں کبھی نہ ہوتیں انہی استعارات و اشارات نے انسانوں کو اس طرح متوجہ کیا اور جب کوئی شخص کسی معاملہ میں توجہ دیتا ہے تو اس کی توجہ کا نتیجہ بھی بروئے کار آتا ہے اور پھر اس طرح جوں جوں توجہ بڑھتی جاتی ہے نقطہ توجہ آگے کو بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس طرح ایک ایجاد سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی طرف انسان کے قدم بڑھنے لگتے ہیں اور ہوتے ہوتے کیا سے کیا ہوجاتا ہے۔ ابھی اس زمین کے اندر کے سارے دفینے ظاہر نہیں ہوئے فضاء کے اندر جو کچھ محفوظ ہے اس پر پوری دسترس انسان کو حاصل نہیں اور ان سیاروں کی مکمل صورت حال روشنی میں نہیں آئی اور یہ کام ایک دو یا چار چھ آدمیوں کا نہیں بلکہ اس میں کروڑوں انسان مل کر جب کام کریں گے اور ایک تلاش کے بعد دوسری تلاش شروع ہوگی تو نہ معلوم کتنے زمانے بدل جانے کے بعد ان خلائوں اور فضائوں اور ستاروں اور سیاروں کی ٹوہ مکمل ہوگی اور کسی ایک مقام پر جا کر سب کی ٹوہ ختم ہوجائے گی اور یہی وہ انتہا ہے جس کی طرف لازوال تعلیم قرآنی نے اشارہ کردیا ہے اور انسانوں کو ایک دوڑ لگانے کا حکم دیا ہے کہ ابھی تمہارے دوڑنے اور بھاگنے کے لئے ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے لئے اور بہت سی اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو دیکھنے کے لئے کافی وقت موجود ہے اور اگر تم ایمان باللہ کو مضبوط کرنا چاہو تو ایمان کی روشنی میں ان فضائوں اور خلائوں اور کوہ پیمائیوں کا سلسلہ تم کو قدرت الٰہی کے بہت سے نشانات کی طرف راہنمائی کرے گا اور تم قدرت الٰہی کے بہت سے نشانات ابھی مزید پائو گے۔ لاریب انسان کی اس جستجو کی حد ہے لیکن ابھی وہ بہت دور ہے جنہوں نے اس جستجو میں قدم اٹھائے ہیں افسوس ہے کہ وہ ایمان باللہ سے خالی ہیں اس لئے وہ صرف اندھی جستجو کر رہے ہیں تاہم ان کی جستجو کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں اگرچہ ان کے ساتھ ایمانیات کا تعلق قائم نہیں کیا گیا اور یہ کمزوری ہمارے علماء اسلام کی ہے کہ انہوں نے اس کام کو ایمان کا حصہ یا عجز قرار دینے سے انکر کردیا اور اس جستجو پر قدغن لگا دی اگر وہ اس کو ایمانات کا حصہ قرار دیتے اور مسلمانوں کی توجہ اس طرف مبذول کراتے تو آج قوم مسلم کے سائنس دانوں کی جستجو کے نتائج دوسری اقوام عالم کے مقابلہ میں بہت آگے ہوتے۔ لیکن بدقسمتی سے مذہبی ٹھیکہ داروں نے مذہب پر اپنی ٹھیکہ داری قائم رکھنے کے لئے ایسے لوگوں پر کفر کے فتویٰ دے کر ان کو مذہب کے بندھن سے ایسا آزاد کیا کہ اب وہ طبقہ مذہب سے اس قدر بیزار ہیں جس قدر یہ مذہبی ٹھیکہ دار اس طبقہ سے حالانکہ اس میں بیزاری کی نہیں بلکہ ساتھ جڑنے کی اور ایمان کی دولت سے مالا مال ہونے کے بعد اس منزل کی طرف بڑھنے کی تلقین لازم و ضروری تھی تاکہ اسلام کی راہیں جو پہلے ہی بہت کشادہ ہیں مزید کشادہ ہوجائیں اور یہ ترقیاں اور ایجادات دنیا کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ انسان کی آخرت کو بھی سنوار دیں اور اس طرح انسانیت نور علیٰ نور ہوجائے۔ بہرحال یہ رونا ہم روتی آ رہے ہیں اور روتے رہیں گے۔ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں ‘ ترسوں ‘ بہرحال یہ سوچ لوگوں کے اندر پیدا ہوگی جس سے ان مذہبی ٹھیکہ داروں کی گرفت ڈھیلی ہوگی اور لوگ اسلام کے ان استعاروں ‘ اشاروں ‘ محاوروں اور ضرب الامثال سے بہت کچھ سیکھ سکیں گے اور ان کی ایمانی قوت اس سے بہت بڑھے گی کیونکہ جس (سدرۃ المنتہیٰ ) پر محمد رسول اللہ ﷺ کو پہنچایا گیا اس پر محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت کے اس وسیع دائرہ کے اندر انسانیت کا پہنچنا لازم و ضروری ہے کیونکہ آپ ﷺ کا وہاں تک پہنچنا لاریب بامقصد تھا بےمقصد نہیں تھا ۔ اللھم صلی علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انک حمید مجید۔ رب یسر ولا تعسر و تمم بالخیر۔
Top