Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 13
وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ
وَلَقَدْ رَاٰهُ : اور البتہ تحقیق اس نے دیکھا اس کو نَزْلَةً : اترنا اُخْرٰى : ایک مرتبہ پھر
اور اس کو جو اس نے ایک بار اور بھی دیکھا
اور اس کو تو اس نے ایک بار اور بھی دیکھا 13 ؎ (زاہ) اس نے اس کو دیکھا رای روبہ سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ‘ ضمیر واحد مذکر غائب۔ (نزلۃ) ایک مرتبہ اترنا (مصدر) (اخری) دوسری ‘ پچھلی اخر اور اخر دونوں کی مؤنث آخری آتی ہے۔ اس لئے دونوں معنی ہو سکتے ہیں لیکن اس جگہ (اخر) کی مونث ہے اس لئے معنی ہیں دوسری۔ اس نے اس کو دیکھا۔ اس نے ‘ کس نے ؟ محمد رسول اللہ ﷺ نے دیکھا۔ کس کو دیکھا ؟ نزول قرآن کو دیکھا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کو دیکھنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا نہ آپ ﷺ نے کبھی اس کا مطالبہ کیا کہ میں اللہ کو دیکھوں اور نہ ہی آپ ﷺ نے کبھی فرمایا کہ میں نے اللہ کو دیکھا بلکہ اللہ کے متعلق شروع ہی سے یہ تصور موجود تھا کہ اللہ رب ذوالجلال والا کرام ان آنکھوں سے دیکھی جانے والی چیز نہیں اور اس دنیا میں کسی کی آنکھ بھی اللہ رب کریم کی ذات کو نہیں دیکھ سکتی اور جبریل (علیہ السلام) کی معیت میں آپ ﷺ تشریف لے گئے تھے کہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام دیکھی جانے والی چیز نہیں اور اس دنیا میں کسی کی آنکھ بھی اللہ رب کریم کی ذات کو نہیں دیکھ سکتی اور جبریل (علیہ السلام) کی معیت میں آپ ﷺ تشریف لے گئے تھے اور اس کی جو بھی صورت تھی وہ لاریب وہی تھی جس سے آپ ﷺ متعارف تھے کیونکہ کم و بیش پانچ سے دس سال تک کا عرصہ اس کے ساتھ تعارف ہوئے گزر چکا تھا اور اس دوران وہ سینکڑوں بار آپ ﷺ سے ملاقات کرچکا تھا پھر اس کو دیکھنے کے لئے (افق اعلیٰ ) پر جانے کی کیا ضرورت تھی ؟ ہاں ! قرآن کریم کا نزول پہلی بار غار حرا میں آپ ﷺ کو نظر آیا جب آپ ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا تھا کہ (اقرا) پڑھو اور ظاہر ہے کہ اس نزول قرآن کے وقت کوئی پڑھنے کی چیز آپ ﷺ کے سامنے پیش کی گئی تھی جس کے باعث آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ” میں پڑھا ہوا نہیں ہوں “ (ما انا بقاری) پھر جب وحی الٰہی کا سلسلہ شروع ہوا تو جبریل نے اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے حکم سے آپ ﷺ کے سامنے وحی کو پڑھا اور اس کے پڑھنے سے آپ ﷺ کے دل میں نقش ہوگئی اور زبان سے اس طرح چلنے لگی جس طرح کوئی دیکھ کر چیز پڑھی جاتی ہے یا زبانی یاد ہوجانے والی چیز کو پڑھا جاتا ہے لیکن اس دفعہ اسی طرح جس طرح پہلی بار غار حرا کے اندر کسی چیز پر تحریر آپ ﷺ کے سامنے پیش کی گئی تھی وہ احکام جو آپ ﷺ کے سامنے اتارے گئے اس طرح گویا دوسری بار آپ ﷺ نے قرآن کریم کے احکام کو اس طرح نازل ہوتے دیکھا اور اسی طرح گزشتہ آیت میں بلانے والے یعنی رب کریم ‘ بلائے گئے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ اور بلا کر لانے والے یعنی جبریل (علیہ السلام) کا ذکر کیا جا رہا تھا اور اب زیر نظر آیت میں قرآن کریم کا ذکر بھی آگیا جو آپ ﷺ پر مسلسل نازل ہو رہا تھا لیکن اس نزول میں اور اس نزول میں جو پہلی بار ہوا تھا ایک خاص فرق چلا آ رہا تھا اور اس مقام پر پہنچ کر دوسری بار پھر نزول قرآن کا وہ منظر آپ ﷺ کو دکھایا گیا جو اس سے پہلے ایک بار آپ ﷺ دیکھ چکے تھے اور یہ دوسری بار دکھایا گیا تھا۔ لاریب اس رائے کا کسی نے اظہار نہیں کیا بلکہ دو ہی رائیں اس سے قبل ہمارے سامنے موجود تھیں ایک یہ کہ جبریل (علیہ السلام) کو محمد رسول اللہ ﷺ نے اس جگہ پہنچ کر دوسری بار اس کی اصل صورت میں دیکھا لیکن یہ ” اس کی اصل صورت “ کے الفاظ کہاں سے آئے کچھ معلوم نہیں کہ یہ پہلی بار کس نے استعمال کئے ؟ ہاں ! یہ الفاظ نبی اعظم و آخر ﷺ سے منقول نہیں ہیں۔ دوسری بات جو سمجھی گئی وہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے دیکھنے کی تھی اور پھر اس میں بھی شروع سے اختلاف چلا آ رہا تھا کہ ایک فریق جس میں سیدہ عائشہ ؓ اور دوسرے صحابہ کرام ؓ بھی شامل تھے کہ اللہ تعالیٰ دیکھی جانے والی چیز نہیں بلکہ قرآن کریم نے خود اس کی وضاحت کردی ہے کہ (لا تفر کہ الابصار و ھو یدرک الابصار) اس لئے اللہ تعالیٰ کی ذات تو مراد ہو ہی نہیں سکتی اس لئے اس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں اور پھر جب ان کو یا بعد میں آنے والوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جبریل آپ ﷺ کے پاس آتے ہی رہتے تھے تو اس کے درمیان ” اصل صورت “ کا اضافہ کردیا تاکہ وہ اعتراض ختم ہوجائے جو اس پر وارد ہوا اور بعض نے اللہ تعالیٰ کی روایت کا فتویٰ دے دیا اگرچہ وہ اس کی وضاحت نہ کرسکے اس لئے انہوں نے اس پر بحث کرنا حرام قرار دے کر اپنا پیچھا چھڑایا لیکن بعض نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کو دل پر محمول کیا اور توجیہ یہ پیش کی کہ قرآن کریم نے آنکھوں سے دیکھنے کی نفی کی ہے دل سے دیکھنے کی نفی نہیں کی لہٰذا اس جگہ دیکھنے سے مراد دل کا دیکھنا ہے اور پھر بعض نے یہی قلب کا دیکھنا بیان کیا اور بعض نے کشف کا دیکھنا مراد لیا اور بعض نے رویا کا دیکھنا بیان کیا حالانکہ کشف ہو یا رئویا دونوں ہی صورتوں میں قرآن کریم کے حکم کے خلاف نظر آتا ہے اور اس میں اس طرح کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ ہم نے جو کچھ مراد لیا ہے اس پر اگرچہ بزرگوں کی مہر ثبت نہیں ہے یعنی نہ گزشتہ بزرگوں کی اور نہ موجودہ بزرگوں کی اس لئے ہم اس کو کسی کی طرف منسوب کرنا بھی گناہ سمجھتے ہیں اس تفہیم میں اگر ہم سے گناہ ہوا ہے تو اللہ سے معافی کے طلب گار ہیں اور ہمیں پورا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیت سے واقف ہے جس طرح بہت سی باتیں اور ہم نے کہہ دی ہیں اس کو بھی آزادی کے ساتھ کہہ دیا ہے اگر بات یہی درست ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے ہمارا اس میں کوئی کمال نہیں غور و فکر سے جو بات ہمارے دل میں جم گئی ہم نے اس کو بیان کردیا۔ یہ دیکھنا کہاں دیکھنا تھا ؟ (سدرۃ المنتہیٰ ) کے پاس 14 ؎ (سدرۃ) سدر ایک درخت ہے جس کو ہماری زبان میں بیری کا درخت کہتے ہیں ‘ کانٹے دار ہوتا ہے ‘ پیوند کاری کے کام آتا ہے اور پیوند لگنے سے اس میں طرح طرح کی تبدیلیاں پیدا ہوجاتی ہیں نہایت گھنا سایہ دیتا ہے۔ پھل اس کا بہت عمدہ اور لذیذ ہوتا ہے۔ اس کے درخت بہت بڑے بڑے بھی ہوتے ہیں اور اس کی اقسام بھی بیشمار ہیں اس جگہ اس کا ذکر کس نسبت کی وجہ سے کیا گیا ہے ؟ عالم بالا اور عالم آخرت کی بات ہے جس کا اصل علم اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے سوا کسی کو نہیں ہے جتنے پھل دار درخت ہیں ان میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ پھل دینے والا اور سب سے زیادہ سایہ دینے والا ہے۔ صرف سائے کے کام آنے والے درختوں میں بعض ایسے درخت ہیں جو بہت بڑے ہیں اور پھل دار وہ نہیں ہوتے یہ ایک وصف کہ پھل دار ہونے کے باوجود اتنا بڑا اور اتنا گھنا سایہ دینے والا کوئی دوسرا درخت نہیں بشرطیکہ کسی اچھی جنس سے تعلق رکھتا ہو اور اس کو ماحول اچھا میسر آئے ورنہ جھائو اور جھاڑیوں ہی کی شکل میں زیادہ تر پایا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے اس کو ناکارہ درختوں میں شامل کیا ہے اور بہت کارآمد درختوں میں بھی جو اہل جنت کو جنت میں میسر آئیں گے۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ (جنھن ذواتی اکل خمط وائل و شی من سدر قلیل) (34 : 16) ” دو اور باغ بدل دیئے جن میں تلخ میوے اور جھائو اور کچھ بیریاں تھیں۔ “ ظاہر ہے کہ اس جگہ (سدرۃ ) کو جھائو اور جھاڑیوں میں شامل کیا گیا ہے خواہ اس کی جنس اچھی نہ ہوگی۔ لیکن دوسری جگہ جنتیوں کو جو پھل پیس کئے جائیں گے ان میں بھی اس کو شامل کیا گیا ہے خواہ اس کی جنس اچھی نہ ہوگی۔ لیکن دوسری جگہ جنتیوں کو جو پھل پیش کئے جائیں گے ان میں بھی اس کو شامل کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے : (ما اصحب الیمین ‘ فی سدر مخضود ‘ وطلح منضود) دائیں والوں کی کیا ہی اچھی حالت ہے کہ وہ بیریوں میں ہوں گے جن کے کانٹے نہیں اور کیلے تہ بہ تہ “ ان کے لئے پیش کئے جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت اونچے درجے کے پھلوں میں سے نہ سہی لیکن درمیانہ درجہ کے پھلوں میں اس کو اولیت دی گئی ہے جو اس کے پھل کی اچھائی پر دلالت ہے۔ (سدرۃ) واحد ہے جس کی جمع سدر ہے۔ مفسرین نے اس درخت پر جو بحث کی ہے اور روایات میں اس کے متعلق جو کچھ آیا ہے سب کو جمع کرنے سے بھی کوئی ایسی بات سامنے نہیں آتی جو حتمی طور پر کہی جاسکے اس لئے ہم ان سارے بیانات کو درج کرنے کی بجائے اس صاف بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے یہ انسانوں کے علم میں آنے والی چیز نہیں اس لئے اس کو (سدرۃ المنتہیٰ ) کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے گویا یہ وہ حد ہے جس سے آگے انسان کے علم کی رسائی نہیں ہے جو علوم بھی ظاہر ہوں گے ان کا اختتام اس جگہ ہوگا اس سے آگے کا انسان کو کچھ علم نہیں ہو سکے گا اس لئے اس کو چھٹے یا ساتویں آسمان کی آخری حد قرار دیا گیا ہے۔ ہاں ! اس سے یہ اشارہ ضرور نکلتا ہے کہ آسمانوں میں یعنی ان بلندیوں اور فضائوں میں ابھی بہت کچھ پوشیدہ ہے جس کا ظاہر ہونا باقی ہے اور یہ بھی کہ اس کا ظاہر ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ استعارات و اشارات موجود نہ ہوتے تو یہ ترقیاں جو روز افزوں ہوتی چلی جا رہی ہیں کبھی نہ ہوتیں انہی استعارات و اشارات نے انسانوں کو اس طرح متوجہ کیا اور جب کوئی شخص کسی معاملہ میں توجہ دیتا ہے تو اس کی توجہ کا نتیجہ بھی بروئے کار آتا ہے اور پھر اس طرح جوں جوں توجہ بڑھتی جاتی ہے نقطہ توجہ آگے کو بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس طرح ایک ایجاد سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی طرف انسان کے قدم بڑھنے لگتے ہیں اور ہوتے ہوتے کیا سے کیا ہوجاتا ہے۔ ابھی اس زمین کے اندر کے سارے دفینے ظاہر نہیں ہوئے فضاء کے اندر جو کچھ محفوظ ہے اس پر پوری دسترس انسان کو حاصل نہیں اور ان سیاروں کی مکمل صورت حال روشنی میں نہیں آئی اور یہ کام ایک دو یا چار چھ آدمیوں کا نہیں بلکہ اس میں کروڑوں انسان مل کر جب کام کریں گے اور ایک تلاش کے بعد دوسری تلاش شروع ہوگی تو نہ معلوم کتنے زمانے بدل جانے کے بعد ان خلائوں اور فضائوں اور ستاروں اور سیاروں کی ٹوہ مکمل ہوگی اور کسی ایک مقام پر جا کر سب کی ٹوہ ختم ہوجائے گی اور یہی وہ انتہا ہے جس کی طرف لازوال تعلیم قرآنی نے اشارہ کردیا ہے اور انسانوں کو ایک دوڑ لگانے کا حکم دیا ہے کہ ابھی تمہارے دوڑنے اور بھاگنے کے لئے ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے لئے اور بہت سی اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو دیکھنے کے لئے کافی وقت موجود ہے اور اگر تم ایمان باللہ کو مضبوط کرنا چاہو تو ایمان کی روشنی میں ان فضائوں اور خلائوں اور کوہ پیمائیوں کا سلسلہ تم کو قدرت الٰہی کے بہت سے نشانات کی طرف راہنمائی کرے گا اور تم قدرت الٰہی کے بہت سے نشانات ابھی مزید پائو گے۔ لاریب انسان کی اس جستجو کی حد ہے لیکن ابھی وہ بہت دور ہے جنہوں نے اس جستجو میں قدم اٹھائے ہیں افسوس ہے کہ وہ ایمان باللہ سے خالی ہیں اس لئے وہ صرف اندھی جستجو کر رہے ہیں تاہم ان کی جستجو کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں اگرچہ ان کے ساتھ ایمانیات کا تعلق قائم نہیں کیا گیا اور یہ کمزوری ہمارے علماء اسلام کی ہے کہ انہوں نے اس کام کو ایمان کا حصہ یا عجز قرار دینے سے انکر کردیا اور اس جستجو پر قدغن لگا دی اگر وہ اس کو ایمانات کا حصہ قرار دیتے اور مسلمانوں کی توجہ اس طرف مبذول کراتے تو آج قوم مسلم کے سائنس دانوں کی جستجو کے نتائج دوسری اقوام عالم کے مقابلہ میں بہت آگے ہوتے۔ لیکن بدقسمتی سے مذہبی ٹھیکہ داروں نے مذہب پر اپنی ٹھیکہ داری قائم رکھنے کے لئے ایسے لوگوں پر کفر کے فتویٰ دے کر ان کو مذہب کے بندھن سے ایسا آزاد کیا کہ اب وہ طبقہ مذہب سے اس قدر بیزار ہیں جس قدر یہ مذہبی ٹھیکہ دار اس طبقہ سے حالانکہ اس میں بیزاری کی نہیں بلکہ ساتھ جڑنے کی اور ایمان کی دولت سے مالا مال ہونے کے بعد اس منزل کی طرف بڑھنے کی تلقین لازم و ضروری تھی تاکہ اسلام کی راہیں جو پہلے ہی بہت کشادہ ہیں مزید کشادہ ہوجائیں اور یہ ترقیاں اور ایجادات دنیا کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ انسان کی آخرت کو بھی سنوار دیں اور اس طرح انسانیت نور علیٰ نور ہوجائے۔ بہرحال یہ رونا ہم روتی آ رہے ہیں اور روتے رہیں گے۔ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں ‘ ترسوں ‘ بہرحال یہ سوچ لوگوں کے اندر پیدا ہوگی جس سے ان مذہبی ٹھیکہ داروں کی گرفت ڈھیلی ہوگی اور لوگ اسلام کے ان استعاروں ‘ اشاروں ‘ محاوروں اور ضرب الامثال سے بہت کچھ سیکھ سکیں گے اور ان کی ایمانی قوت اس سے بہت بڑھے گی کیونکہ جس (سدرۃ المنتہیٰ ) پر محمد رسول اللہ ﷺ کو پہنچایا گیا اس پر محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت کے اس وسیع دائرہ کے اندر انسانیت کا پہنچنا لازم و ضروری ہے کیونکہ آپ ﷺ کا وہاں تک پہنچنا لاریب بامقصد تھا بےمقصد نہیں تھا ۔ اللھم صلی علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انک حمید مجید۔ رب یسر ولا تعسر و تمم بالخیر۔
Top