Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 14
عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى
عِنْدَ : پاس سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى : سدرۃ المنتہی کے
{ سدرۃ المنتھی } کے پاس
(سدرۃ المنتہیٰ ) وہی ہے جس کے پاس جنت الماویٰ ہے 15 ؎ (الماوی) مصدر اور اسم ظرف۔ قیام کرنا ‘ رہنا ‘ سکونت کرنا ‘ سکونت پذیر ہونا ‘ مقام سکونت ‘ ٹھکانہ ‘ آوی یاوی ماضی مضارع اور اوی بھی مصدر ہے۔ (الماوی) معرف باللام۔ قرآن کریم میں تین جگہ آیا ہے اور ہر جگہ مصدری معنی ہیں۔ (عندھا) اس کے پاس یعنی ( سدرۃ المنتہیٰ ) کے پاس وہ جنت ہے جو قیام گاہ یا ٹھہرنے کی جگہ بنے گی۔ اس پر اتنے سوال اٹھائے گئے ہیں کہ آیا جنت الماوی سارے جنتیوں کی جگہ ہے یا کچھ خاص قسم کے جنتیوں کی ؟ پھر اس کے مختلف جواب دیئے گئے ہیں کسی نے کہا کہ اس میں نبیوں اور رسولوں کو سکونت ملے گی ‘ کسی نے کہا یہ صرف شہداء کی جگہ ہوگی ‘ کسی نے کہا یہ صرف ارواح کی جگہ ہے اور علاوہ ازیں بھی بہت کچھ کہا گیا ہے۔ پھر اس میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا جنت آسمانوں میں ہے یا زمین میں ہے ؟ پھر اس کے مختلف جواب دیئے گئے کسی نے اس کو وہ جنت مانا جو قیامت کے بعد قائم ہوگی اور کسی نے کہا کہ جنت تو شروع دنیا ہی سے قائم کردی گئی ہے وہ جنت آسمانوں میں ہوگی ‘ نہیں ! وہ جنت تو زمین پر ہوگی۔ یہ جنت جس کا ذکر اس آیت میں ہے یہ آسمانوں پر ہے۔ پہلے کہی گئی باتوں کی دلیل کیا ہے ؟ اس سے پہلے کہی گئی باتوں کی دلیل کیا ؟ گویا پہلوں نے جو کچھ کہا وہ اگرچہ بےدلیل تھا لیکن بعد میں آنے والوں کے لئے وہ دلیل بن گیا اور پھر سارے ہی مکاتب فکر کے پاس اس طرح کے دلائل ہیں جن کا تانا بانا اس طرح بنا گیا ہے کہ پہلے آنے والے بعد میں آنے والوں کے لئے دلیل بنتے رہے ہیں اور اسی طرح بنتے رہیں گے۔ پہلوں کی دلیل کیا تھی ؟ یہ بحث کبھی بھی کسی نے نہیں اٹھائی اس لئے کتاب و سنت کا نام لینے والے جب پہلوں کی باری آتی ہے تو یہ بات بھول جاتے ہیں اور ان کا تقدس سب کو آڑے آتا ہے حالانکہ تقدس کی بات اپنی جگہ پر صحیح ہے لیکن اس کا مقصود اندھی تقلید کب تھا جو ہم نے بنا لیا۔ جیسا کہ پیچھے گزر چکا جب (سدرۃ المنتہیٰ ) کی بات چلی تو کسی نے کہا کہ یہ جنت کی انتہائی حد پر ہے جس پر اولین اور آخرین کا علم منتہی ہوجاتا ہے۔ اس کی دلیل کیا ہے ؟ تو ہم کو بتایا گیا یہ ابن اثیر نے کہا ہے۔ اسے (سدرۃ المنتہیٰ ) اس لئے کہا گیا ہے کہ اس پر تمام عالموں کا علم ختم ہوجاتا ہے اور جو اس کے آگے ہے وہ غیب ہے۔ ہم کو یہ کسی نے بتایا ؟ یہ جواب ملا کہ یہ امام رازی ؓ نے فرمایا ہے۔ ملک مقرب ہو یا نبی مرسل ہو سب کا علم اس پر ختم ہوجاتا ہے یہ کس کا ارشاد ہے ؟ یہ کعب احبار کا قول ہے۔ وہ ہر شخص کی انتہا ہے جو سنت رسول پر چلتا ہے۔ ہم کو یہ کس نے بتایا ہے ؟ ہم کو جواب ملتا ہے کہ ابن جریر نے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ جو بات ہم نے اوپر بیان کی ہے وہ فضول تو نہیں کہی یہ ابن اثیر ‘ ابن کثیر ‘ امام رازی ‘ ابن جریر ‘ در منشور اور کعب احبار ؓ سب کے سب کون لوگ ہیں ؟ ان بزرگوں نے ان اقوال کو کہاں سے حاصل کیا ؟ ان کے پاس اس کی دلیل کیا تھی ؟ ان سوالوں کو رہنے دیں اب ہمارے لئے یہ سب اقوال مدلل ہوگئے ‘ ان ناموں کے باعث جن کا ذکر اوپر کیا گیا اور اب اس مدلل بات کو اگر کوئی تسلیم نہیں کرے گا یا اس دلیل کے خلاف کوئی دلیل پیش کرے گا تو وہ مطعون ہوگا اور اس کو سارے برا کہیں گے اور اس پر تفسیر بالرای کا الزام آئے گا ‘ کو یں ؟ اس لئے کہ اس نے ان دلائل میں سے کسی دلیل کو کیوں تسلیم نہیں کیا۔ ہاں ! ان میں سے کسی ایک قول کی تردید دوسرے کو قول کی تصدیق کرنے سے نہ وہ تفسیر ‘ تفسیر بالرائے رہے گی اور نہ ہی اس کو کوئی مطعون کرے گا اور ساری باتوں میں ہمارا یہی حال ہے اور اس بات کو اگر اس طرح کہا جائے کہ (سدرۃ المنتہیٰ ) ہی کے پاس وہ مقام تھا جہاں آپ ﷺ کو ٹھہرایا گیا اور اس کو اس طرح (جنت الماویٰ ) کہا گیا ہے جس طرح روضۃ من ریاض الجنۃ ہے حالانکہ یہ مقام مسجد نبوی کے اندر ہے اور اس پر کسی طرح کی کوئی بحث نہیں ہے کہ یہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اور اس جگہ کو لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اب جو شخص مسجد نبوی کی زیارت کرے گا اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا اور جس مقام کی انتہا تک آپ ﷺ کو لے جایا گیا وہاں تک جانا کسی کے حصہ میں ابھی تک نہ آیا اتنی بات تسلیم کرلینے سے معاملہ صاف اور درست ہوجاتا ہے اور اگر ممکن ہو تو یقینا وہ انسانیت کے صعود کی انتہا ہے اور ایک مسلمان کو اسلام کے ناطے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی نسبت سے دوسرے لوگوں سے بھی زیادہ حق ہے کہ وہ اس کی جستجو کریں اور ان خلائوں اور فضائوں اور سیاروں اور ستاروں کی چھان بین ایمان باللہ کے ساتھ کریں تاکہ ان استعارات و اشارات کی راہنمائی میں دین و دنیا کی ترقیاں قوم مسلم کے حصے میں بھی آئیں جو دراصل ان کے اصل وارث ہیں لیکن علمائے اسلام نے اپنی ٹھیکہ داری کو قائم رکھنے کے باعث اسلام کے شیدائیوں کو ان کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیا اور نہ ہی متوجہ ہونے دیں گے۔ اسی کو کہا جاتا ہے کہ نہ کھلیں گے نہ کھلیں گے نہ کھیلنے دیں گے۔
Top