Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 16
اِذْ یَغْشَى السِّدْرَةَ مَا یَغْشٰىۙ
اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ : جب چھا رہا تھا سدرہ پر مَا يَغْشٰى : جو کچھ چھا رہا تھا
اس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھا
اس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھا 16 ؎ (یغش) واحد مذکر غائب مضارع معروف (غشی) غشیان مصدر۔ وہ چھائی ہوئی تھی ‘ وہ چھا رہی تھی ‘ چھا جائے گا ‘ ڈھانک لے گا۔ جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھا۔ اس میں مانگنے اور نہ مانگنے کی حالت کو واضح کیا جا رہا ہے کہ جس نے طلب کی تھی اس نے یہ نہ سمجھا کہ میں کس چیز کی طلب کر رہا ہوں ؟ پھر ہم نے اس کو ایک تجلی کی طرف متوجہ کیا لیکن اس میں تجلی کی برداشت بھی نہ تھی نتیجہ یہ نکلا کہ وہ غشی کھا کر گر گیا اور جوں ہی ہوش میں آیا تو اس کی طلب ہوا ہوچکی تھی۔ ادھر بغیر طلب کئے ایک پروگرام سپرد کرنے کے لئے خود دعوت دے کر بلایا گیا اور اس مقام تک اس کو بلند کیا گیا جہاں تک انسان کو بلند کیا جاسکتا ہے اور پھر طرح طرح کے مناظر اس کو دکھائے گئے۔ نزول قرآن کا منظر بھی اس کو دکھایا گیا اور اس طرح کے بہت سے مناظر اس نے دیکھے لیکن اس کو ان سے کسی طرح کی کوئی گھبراہٹ نہیں ہوئی یہاں تک کہ آپ ﷺ کو اس قرب پر لایا گیا جس قرب پر قبل ازیں کوئی نبی و رسول نہیں لایا گیا تھا۔ آپ ﷺ نے اس کو برداشت کیا اور پھر کیا ہوا کہ اچانک اس مقام کو ڈھانپ لیا گیا جس طرح بھی ڈھانپ لیا گیا اس ڈھانپ لینے کی جو کیفیت بھی ہو سکتی تھی وہ ہوئی اور آپ ﷺ پر اس طرح بھی کوئی گھبراہٹ اور غشی طاری نہ ہوئی۔ غشی طاری ہونا تو درکنار اللہ کے فضل و کرم سے آپ ﷺ کی آنکھوں تک میں بھی کوئی چکا چوند نہ ہوئی اور جو مشاہدہ ہوا وہ اس طرح ہوا کہ اس کا حرف حرف یاد رہا جو اس بات کو ثبوت ہے۔ کہ آپ ﷺ کے دل نے اس کو من و عن قبول کیا گویا ظرف سے کوئی بوند بھی باہر نہ ٹپکی۔ غور کرو کہ بےہوش ہونے والے اور غشی کھا کر گرنے والے بھی اللہ کے نبی اور رسول ہی تھے لیکن (تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعضم) کے مطابق جو فضیلت اللہ نے نبی اعظم و آخر محمد رسول اللہ ﷺ کو عطا کی وہ کس قدر واضح اور ظاہر ہے۔
Top