Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 23
اِنْ هِیَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ١ۚ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰىؕ
اِنْ هِىَ : نہیں وہ اِلَّآ اَسْمَآءٌ : مگر کچھ نام ہیں سَمَّيْتُمُوْهَآ : نام رکھے تم نے ان کے اَنْتُمْ : تم نے وَاٰبَآؤُكُمْ : اور تمہارے آباؤ اجداد نے مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ : نہیں نازل کی اللہ نے بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ۭ : ساتھ اس کے کوئی دلیل اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ : نہیں وہ پیروی کرتے اِلَّا الظَّنَّ : مگر گمان کی وَمَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ ۚ : اور جو خواہش کرتے ہیں نفس وَلَقَدْ جَآءَهُمْ : اور البتہ تحقیق آئی ان کے پاس مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰى : ان کے رب کی طرف سے ہدایت
یہ نام محض نام ہی ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں اللہ نے تو (ان کی) کوئی سند نہیں اتاری ، یہ لوگ تو محض اپنے گمان اور اپنی خواہش نفس پر چل رہے ہیں حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کو ہدایت پہنچ چکی ہے
یہ تو نام ہی نام ہیں جو تم نے گھڑ لئے ہیں یا تمہارے آبائو اجداد نے 23 ؎ اب ان کے وہمی مفروضوں پر ان کی سرزنش کی جا رہی ہے کہ تم عجیب آدمی ہو کہ جن کو تم نے حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ لیا ہے ان میں کوئی بات حاجت روائی اور مشکل کشائی کی نہیں ہے کیونکہ حاجت روا اور مشکل کشا تو صرف اور صرف وہ ذات ہے جس نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا ہے اور ہر ایک چیز کی روزی کا بندوبست فرمایا ہے اور ہر ایک چیز کی حفاظت وہ براہ راست کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو یہ اختیار نہیں دیا اور نہ ہی یہ اختیار کسی انسان کو دیئے جاسکتے ہیں یہ تو محض نام ہی نام ہیں جو تم نے گھڑ لئے یا تمہارے آبائو اجداد نے اور تمہاری ان وہمی مفروضوں کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی قیمت نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے کوئی سند نہیں اتاری اور نہ ہی اس طرح کی باتیں کرنے والوں کے پاس کوئی آسمانی نوشتہ ہے کہ جس سے ان کو یہ بات معلوم ہوئی ہے۔ یہ تو محض نشانات ہیں جن میں انہوں نے خالق کی صفات تسلیم کرلی ہیں حالانکہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے اپنی ذات یا اپنی صفات میں کسی کو کبھی بھی کسی زمانہ میں شریک نہیں کیا اور نہ ہی اس کو کسی کی اجازت دی ہے اور نہ عقل سلیم اس کو ماننے کیلئے تیار ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے وہ جو اپنے آپ کو یا اپنے جیسی دوسری مخلوق کو اپنا خدا بنائے اور اس میں خالق کی صفات تسلیم کرے پھر تعجب ہے کہ جب اللہ کے نیک بندوں اور فرشتوں کے خیالی مجسمے گھڑ کر ان میں وہ صفات تسلیم کرلی گئیں جو محض اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خاص ہیں تو شرک کیا ہے ‘ اگر یہ شرک نہیں ؟ پھر یہ بھی کہ ان بےجان پتھروں اور تراشوں کا تعلق ان انسانوں اور اللہ کے نیک بندوں سے کیا ہوا جن کے متعلق انہوں نے یہ مفروضہ گھڑ لیا کہ یہ ان نیک بندوں کے تراشے ہیں اور اللہ کے نیک بندوں سے کیا ہوا جن کے متعلق انہوں نے یہ مفروضہ گھڑ لیا کہ یہ ان نیک بندوں کے تراشے ہیں اور اللہ کے ان فرشتوں کے جن کو ہم نے اللہ کی بیٹیاں قرار دیا ہے۔ دوسری جگہ ان سے پوچا گیا ہے کہ کیا تم اس وقت پاس تھے جب اللہ نے ان کو پیدا کیا کہ یہ لڑکیاں ہیں یا ویسے ہی ایک من گھڑت بات کہہ رہے ہو جس کی کوئی دلیل تمہارے پاس نہیں ہے اور یہ بھی کہ ان کفار پر اس لئے بھی تعجب کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ لوگ دنیا کے معاملات میں تو بڑے زیرک اور ہوشیار بنتے ہیں کیا یہ زیر کی اور ہوشیاری کی بات ہے جو یہ کہہ رہے ہیں یا سراسر بیوقوفی اور حماقت کی بات ہے۔ پھر خود ہی اس کی وضاحت فرما دی کہ یہ سب کچھ ان کے ظن وتخمین کی گل کاریاں ہیں اور ان کے نفوس کی خواہشات ہیں جن کی وہ پیروی کر رہے ہیں ایسی چیزوں کو معبود ماننے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں جو کچھ نذر و نیاز لے کر ان کے خیالات کے مطابق ان کی مصیبتوں کو ٹال دیں اور اگر بفرض محال قیامت قائم ہوجائے تو ان کی شفاعت کی ذمہ داری قبول کرلیں۔ ایسے معبودوں کو وہ ماننے کے لئے تیار ہیں وہ ان کے لئے قربانی کے جانور ذبح کرنے کے لئے ‘ ان کے درباروں پر منت کے بکرے ‘ چھترے ‘ چڑھانے کے لئے اور ان کی نذریں ‘ نیازیں دینے کے لئے لیکن ایک اللہ کو ماننا اور وہ جو احکام صادر کرے ان کو تسلیم کرنا اور خصوصاً ایسے احکام جو ان کے دنیاوی مفاد کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتے ہوں ‘ ایسے احکام جو ان کی بساط عیش و طرب کو الٹنے کا موجب بن سکتے ہوں ‘ جو ان کی آزاد طبع پر قدغن لگا دیتے ہوں۔ ایسے اللہ کی الوہیت کو وہ تسلیم کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ لاریب حقیقت یہی ہے کہ وہ ان بزرگوں ‘ فرشتوں اور ان کے مفروضہ بتوں کے پجاری نہیں بلکہ وہ خواہشات نفس کے پرستار ہیں اس لئے ایسے لوگوں سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ آج نہیں توکل اور کل نہیں تو پرسوں عقل و خرد سے کام لیں گے اور اللہ کے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو غور سے سنیں گے۔ ع ” ایں خیال است و محال اس وجنوں “ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم سے صرف اور صرف ان کی راہنمائی کے لئے ایسا کامل و اکمل رسول ان کی طرف بھیج دیا جو بغیر کسی مزدوری و اجر کے ان کو اللہ کا پیغام پہنچاتا ہے اور اپنے نورانی ارشادات سے ان کے دلوں کی تاریک دنیا روشن کر رہا ہے اور اس کی نہ ختم ہونے والی نبوت و رسالت اور قرآن کریم جیسی کامل کتاب بھی ہے لیکن یہ بدبخت اور بدنصیب اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی بھیجی ہوئی ہدایت کو پس پشت ڈال رہے ہیں اور دن بدن رذیل خواہشات کی دلدل میں پھنستے چلے جا رہے ہیں اور ان کی بدبختی کا یہ عالم ہے کہ اپنے رب کریم کی لائی ہوئی ہدایت کو اس طرح ٹھکرا رہے ہیں جس طرح یہ لوگ گویا مخاطب ہی نہیں بلکہ اس کا مخاطب کوئی اور ہے۔
Top