Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 3
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ
وَمَا يَنْطِقُ : اور نہیں وہ بولتا۔ بات کرتا عَنِ الْهَوٰى : خواہش نفس سے
اور وہ تو اپنی خواہش (نفس) سے بات ہی نہیں کرتا
اور اللہ کے رسول محمد رسول اللہ ﷺ نے تو کبھی خواہش نفس کی کسی سے بات ہی نہیں کی 3 ؎ انسان اور اس کی خواہش دونوں لازم و ملزوم ہیں ایک کا ہونا دوسرے کا ثبوت ہے۔ انسان ہے تو لاریب اس کی خواہش بھی موجود ہے اور جب خواہش ہے تو بلاشبہ انسان بھی ہے پھر نفی کس بات کی گئی ہے ؟ نفی ان خواہشات کی گئی ہے جن پر نفسانی خواہشات کا اطلاق ہوتا ہے اور وہ ہی جو جائز اور درست نہ ہوں لیکن ان کا پیدا ہونا کوئی برائی نہ ہو ہاں ! ان کا پورا کرنا برا ہو۔ اس جگہ کمالات کی بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کے اندر کسی ایسی خواہش کے پیدا ہونے کی نفی کی گئی ہے جس کا نطق سے اظہار ہو اور وہ خواہش انسان کے لئے محمود نہ ہو بلکہ مذموم ہو۔ اگر اس پر پوری طرح غور کیا جاتا جس طرح غور کرنے کا حق تھا تو آپ ﷺ کے حق کو محفوظ رکھنے کے لئے بیسیوں باتیں ایسی ہیں جن کا مفہوم لوگوں نے اپنی غلطی کے باعث صحیح نہیں سمجھا لیکن افسوس کہ جس کسی نے اس کو صحیح سمجھنے کی کوشش کی اس کو منفرد کہہ کر درخوراعتناء نہ سمجھا گیا۔ اس جگہ ہم تفصیل بیان نہیں کرسکتے۔ البتہ ایک واقعہ نقل کر کے بات کو ختم کردیں گے اور اگر اس ایک بات کو سمجھ لیا گیا تو باقی باتوں کو اسی پر محمول کرلیا جائے گا اگر کوئی اس پر محمول کرنا چاہے گا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ : (عن جابر ان النبی ﷺ رای امراۃ فدخل علیٰ زینب فقضی حاجتہ فخرج و قال ان المراۃ اذا اقبلت اقبلت فی صورہ شیطان فاذا رای احد کم امراۃ فاعجبتہ فلیات اھلہ فان معھا۔ مثل الذی معھا ) الترمذی باب ماجاء فی الرجل بری المراۃ فتعجبہ) اس کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے کہ : ” جابرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کو دیکھا تو اپنی بیوی زینب کے پاس سوئے اور اپنی حاجت پوری کی اور باہر نکلے تو فرمایا کہ عورت جب سامنے آتی ہے تو شیطان کی صورت میں آتی ہے لہٰذا اگر تم میں سے کوئی شخص کی عورت کو دیکھے اور وہ اسے اچھی لگے تو وہ اپنی بیوی کے پاس جائے کیونکہ اسکے پاس بھی وہی کچھ ہے جو اس کے پاس ہے “۔ ہم اس کی ترجمانی اس طرح کرتے ہیں کہ ” جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ نے اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کو دیکھا لیکن اس کے ہاں باری کی رات نہ تھی تو آپ ﷺ اپنی بیوی زینب ؓ کے پاس آئے۔ جس کی باری کی رات تھی “ بعد ازاں جب کبھی اس طرح کا موضع زیر بحث آیا تو آپ ﷺ نے عدل بین النساء کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ” اگرچہ ایسا ممکن ہے کہ شیطان انسان کو کسی ایسی بات کی طرف دعوت دے جس کا انسان کو حق نہیں۔ پس اگر تم میں سے کوئی ایسی بات سے دوچار ہوجائے تو وہ اپنی اس بیوی کی طرف آئے جس کی باری ہے کیونکہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اس کے پاس بھی ہے۔ “ اور اس سے استدلال اس طرح بھی کرسکتے ہیں کہ : ” اگر کسی شخص کے پاس دو یا دو سے زائد چار تک بیویاں ہوں اور وہ عدل و انصاف سے کام لیتے ہوئے ہر ایک کو برابر باری کا حق دے رہا ہو لیکن اگر اتفاق ایسا ہوجائے کہ کسی بیوی کی باری کے روز اللہ تعالیٰ کا حکم اس کو مانع ہو اور اس کو ازدواجی زندگی گزارنے کا احساس ہو تو چاہئے کہ وہ دوسری بیوی کے ہاں اپنے احساس کا ازالہ کرلے اور شیطان کے بہلاوے میں نہ آئے کیونکہ وہ اس کو اس بیوی کی طرف مائل کرسکتا ہے کہ وہ حکم الٰہی کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنے احساس کا ازالہ اس جگہ کرے کہ شاید دوسری جگہ بھی یہی کچھ ہو جو یہاں ہے کیونکہ شیطان اس طرح کی کار ستانیاں دکھاتا رہتا ہے۔ “ ایسا کیوں ؟ اس لئے کہ قرآن کریم کی آیت اس پر گواہ ہے کہ کوئی نبی و رسول بھی اپنی خواہش نفس سے کام نہیں لیتا اور خصوصاً نبی اعظم و آخر ﷺ کے متعلق ایسا خیال کرنا بھی حرام اور گناہ ہے کیونکہ ایسے معاملات تو کسی انسان کے ساتھ بھی اتفاقاً پیش نہیں آتے بلکہ ان کے لئے اس سے پہلے بہت کچھ ہو چکتا ہے تب معاملہ اس حد تک پہنچتا ہے کبھی اتفاقی نظر سے اس طرح کا ہیجان پیدا نہیں ہو سکتا یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اور احادیث رسول نے اتفاقی نظر کو بدنظر میں شامل نہیں کیا۔ بدنظری وہ ہوتی ہے جو اتفاقی نظر کے بعد آنکھ خیانت کرتی ہے تو پھر یہ خیانت کسی دوسرے شخص کے بارے میں تسلیم کی جاسکتی ہے خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو لیکن ایک نبی و رسول کے بارے میں تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ رہا ترجمہ کا معاملہ تو اس کے متعلق سمجھ لینا چاہئے کہ (رای امراہ) میں تنوین عوض مضاف الیہ ہو کہ امرائتہ ہے یا امراۃ من نساء ؟ مقصود ہے جو عربی قاعدہ کے مطابق ہے یعنی آپ ﷺ نے اپنی عورتوں میں سے کسی کو دیکھا اور پھر وعظ و درس کی بات بوقت ضرورت ارشاد فرمائی نہ کہ اسی قت ازالہ خواہش کے بعد جیسا کہ مقام ترجمہ سے واضح دکھائی دے رہا ہے۔ احادیث کے انہی تراجم نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا ہے اور لوگوں کی زبانیں دراز کردی ہیں کہ جہاں احتیاط چاہئے تھی نہیں کی گئی حالانکہ ایک زبان کا ترجمہ دوسری زبان میں کرتے وقت ان چیزوں کا خیال بہت ضروری ہوتا ہے اور بعض اوقات صرف لب و لہجہ کا خیال نہ کیا جائے تو مفہوم کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے۔ مذکورہ احادیث مسند دارمی عبداللہ بن مسعود سے اور مشکوٰۃ شریف میں اسی حوالہ سے باب النظر الی المخطویۃ ص 269 پر بیان کی گئی ہے اور مشکوٰۃ کے حاشیہ کی عبارت پڑھنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہمارے بزرگوں کی اکثریت نے اس سے اتفاقی نظر مراد لی ہے لیکن اس سے معاملہ صاف نہیں ہوا اور نبوت و رسالت کا احترام ملحوظ نہیں رکھا گیا اور انہی حاشیوں نے اس طرح کی باتوں کو مزید بگاڑنے میں بہت کام کیا ہے اور اس طرح بات بگڑتے بگڑتے کچھ سے کچھ ہو کر رہ گئی ہے اور احادیث کے تراجم میں یہ بات عام ہے۔ والی اللہ المشتکی ۔ واللہ المستعان علی ماتصفون۔
Top