Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 4
اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ
اِنْ هُوَ : نہیں وہ اِلَّا وَحْيٌ : مگر ایک وحی ہے يُّوْحٰى : جو وحی کی جاتی ہے
بلکہ وہ تو اس (اللہ) کی طرف سے نازل ہونے والی وحی ہے
بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی ہے 4 ؎ یہ آیت گزشتہ آیت کی مزید وضاحت بیان کر رہی ہے کہ آپ ﷺ کی خواہش نفس یعنی حرص و ہوا سے خالی ہونا کسی ایک بات کے بارے میں نہیں بلکہ عام ہے یعنی ایک اصولی بحث ہے جس میں کسی طرح کا کوئی ابہام نہیں ہے۔ آپ ﷺ کبھی بھی کوئی بات خواہش نفس سے نہیں کرتے بلکہ آپ ﷺ جو کچھ بولتے ہیں وحی الٰہی کے مطابق بولتے ہیں اور یہ بات کہ وحی کیا ہے ؟ نبوت و رسالت کے اشارات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے ہونے والے نبی و رسول کے لئے مخصوص تھے جن کی پوری کیفیت ہم واضح الفاظ میں پیش نہیں کرسکتے کیونکہ جو چیز مشاہدہ میں آنے والی نہ ہو اس کے متعلق جو کچھ بھی کہا جائے گا وہ ایمان باللہ اور ایمان بالرسات ہی کے تحت کہا جاسکتا ہے اور ظاہر ہے کہ نبوت کا دیباچہ یہ تھا کہ خواب میں آپ ﷺ پراسرار منکشف ہوتی اور جو کچھ آپ ﷺ خواب میں دیکھتے تھے بعینہ وہی پیش آتا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب اول مابد ‘ رسول اللہ ﷺ من الوحی الرویا الصالحۃ فی النوم) اور رفتہ رفتہ وہ ناموس اکبر آپ ﷺ کے حاسہ میں نے لگا اور اس کا فرضی وجود قائم ہوگیا کیونکہ کوئی فرشتہ بھی اپنا اصل اور واضح وجود نہیں رکھتا کیونکہ وہ جسمانی مخلوق نہیں ہے کہ اس کا کوئی حقیقی وجود تصور کیا جائے اور آخر اس کا یہ ہے کہ ایک خاص خاصیت و کیفیت کی بعد فرشتہ ایک بات آپ ﷺ کے دل پر نازل کرتا یعنی اتارتا اور اس کیفیت سے جب آپ ﷺ باہر آتے تو دل میں ڈالا گیا کلام اپنی زبان اقدس سے کاتبان وحی میں سے جو حاضر ہوتا تحریراً لکھوا دیتے اور لاریب وہ کلام الٰہی ہوتا اور نطق آپ ﷺ کے دل میں بھی محفوظ ہوتی جاتی اور دماغ میں بھی اور اس تحریر میں بھی جس میں یہ تحریر کرایا جاتا۔ جب یہ بات واضح کی گئی کہ آپ ﷺ حرص و ہوا سے کوئی بات بھی نہیں کرتے تو اس پر یہ سوال قدرتی پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ قرآن کریم ہے کیا ؟ اس کا یہ جواب ہے کہ وحی الٰہی ہے اور اس طرح ہو کی ضمیر قرآن کریم کی طرف راجع ہے اور نطق سے مراد وہی نطق ہے جو نازل ہوا عام بول چال اور مافی الضمیر جس کا اظہار بہرحال انسان زبان ہی سے کرتا ہے وہ مکمل مراد نہیں ہے۔ جس طرح ایک جج جج ہی ہے خواہ وہ سویا ہوا ہو یا جاگتا ہو ‘ کھاتا پیتا ہو یا اوڑھتا پہنتا ہو لیکن اس کا فیصلہ اسی کو کہا جائے گا جو وہ عدالت میں بھٹخ کر فیصلہ کی شرائط کو پورا کرتے ہوئے ارشاد کرے نہ کہ ہر وقت کی بول چال اور ہر مجلس کی بات فیصلہ تسلیم کی جائے گی۔ ہاں ! اس کا احترام ایک بالکل دوسری بات ہے اور وہ ہر حال میں ہوگا۔ یہی حالت نبوت و رسالت کا ہے کہ آپ ﷺ کے بارے میں ایک سے زیادہ بار یہ سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ نے یہ حکم دیا ہے یا مشورہ طلب کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے جو ارشاد فرمایا ہے اس کے متعلق کچھ ہم بھی مرضی کرسکتے ہیں ؟ پھر آپ ﷺ نے اس کی اجازت بھی دی کہ ہاں ! جو کچھ کہنا چاہو کہہ سکتے ہو اور بعض اوقات آپ ﷺ نے اپنی رائے کے برعکس دوسروں کی رائے کو قبول فرماتے ہوئے اس پر عمل بھی کیا۔ ان ساری باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس نطق سے مراد وہی نطق ہے جو وحی الٰہی یعنی قرآن کریم یا اس کی تھیوری (Theory) کے پریکٹیکل میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمائی یعنی ایک وحی الٰہی ہے جو آپ ﷺ نے تلاوت فرمائی اور اس کو باضابطہ طور پر تحریر کرایا اور دوسری اس کی وضاحت ہے جو کہ قرآنی حکم کی آپ ﷺ نے فرمائی اور اسی کے مطابق امت کو عمل کر کے بتا دیا۔
Top