Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 50
وَ اَنَّهٗۤ اَهْلَكَ عَادَا اِ۟لْاُوْلٰىۙ
وَاَنَّهٗٓ : اور بیشک وہی ہے اَهْلَكَ : جس نے ہلاک کیا عَادَۨا الْاُوْلٰى : عاد اولیٰ کو
اور بلاشبہ اس نے عاد اوّل کو ہلاک کیا
وہ وہی ہے جس نے عاد اولیٰ کو بھی بلاک کیا تھا 50 ؎ عاد اولیٰ سے مراد سیدنا ہود (علیہ السلام) کی قوم ہے۔ عاد عرب کے قدیم قبیلہ یا امم سامیہ کے صاحب قوت و اقتدار افراد جماعت کا نام ہے۔ عاد کا ذکر قرآن کریم کی نو سورتوں میں ہوا ہے۔ یعنی سورة الاعراف ‘ سورة ہود ‘ سورة المومنون ‘ سورة الشعراء ‘ سورة فصلت ‘ سورة الاحقاف ‘ سورة الذاریات ‘ سورة القمر اور سورة الحاقہ میں۔ عاد کا مرکزی مقام ارض احقاف ہے جو حضر موت کے شمال میں اس طرح واقع ہے کہ اس کے شرق میں عمان ہے اور شمال میں ربع الخال مگر اس وقت ریت کے ٹیلوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور یمن ان کا دارالحکومت تھا۔ عادم قوم بت پرست تھی اور اپنی پیش رو قوم نوح کی طرح صنم پرستی اور صنم تراشی میں وہ بہت ماہر تھے اور ان کے معبود ان باطل بھی تقریباً وہی تھے جو نوح (علیہ السلام) کی قوم کے تھے اور وہی ” پنج تن “ ان کے ہاں بھی معروف تھے جو نوح (علیہ السلام) کی قوم سے چلے آ رہے تھے۔ ود ‘ سواع ‘ یغوث ‘ یعقو اور نسرالتبہ ان کے علوہ بھی وہ بہت سے بزرگوں کے بت تراشتے اور پوجتے تھے۔ عاد اپنی مملکت کی سطوت و جبروت ‘ جسمانی قوت و صولت کے غرور میں ایسے بہکے کہ انہوں نے خدائے واحد کو بالکل بھلا دیا اور اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے بتوں کو اپنا معبود مان کر ہر قسم کے شیطانی اعمال بےخوف و خطر کرنے لگے اور جو کچھ آج کل بزرگوں کی قبروں پر میلے لگوانے والے کرتے ہیں یہ سب کچھ وہ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔ ہود علہ السلام نے ان کو بار بار سمجھایا کہ میں تمہارا دشمن نہیں ہوں بلکہ دوست ہوں اور تم سے سیم و زر اور ریاست کا طالب نہیں ہوں بلکہ تمہاری فلاح و نجات چاہتا ہوں۔ میں اللہ تعالیٰ کے پیغام کے بارہ میں خائن نہیں ہوں بلکہ امین ہوں ‘ وہی کہتا ہوں جو مجھ سے کہا جاتا ہے۔ جو کچھ کہتا ہوں تمہاری سعادت اور حسن مال کے لئے کہتا ہوں بلکہ دائمی اور سرمدی نجات کے لئے کہتا ہوں اور تمہیں ایک اللہ وہدہ لا شریک لہ کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ قوم عاد نے جب ایک اللہ کا نام سنا تو حیرت میں پڑگئے اور انجام کار ان کے اندر غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی کہ ہم اپنے باپ دادا کی ریت کو کیسے چھوڑ دیں ؟ یہ ہماری اور ہمارے باپ دادا کی سخت توہین ہے۔ مختصر یہ کہ ان کا غیظ و غضب بھڑک اٹھا اور ہود لیہ السلام سے بگڑ کر کہنے لگے کہ تو نے ہم کو اپنے خدا کے عذاب کی دھمکی دی ہے پس اب ہم تجھ سے کچھ نہیں چاہتے۔ الا یہ کہ تو وہ عذاب لے آ جس کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اگر واقعی تو سچوں میں سے ہے اور پھر یہ سلسلہ ایک مدت چلتا رہا اور وہ مطالبہ پر مطالبہ کرتے رہے۔ الحاصل قوم عاد کی انتہائی شرارت و بغاوت اور اپنے پیغمبر سے بےپناہ بغاوت و بغض کی پاداش میں ان پر قحط مسلط کردیا گیا اور خشک سالی نے ان کو بھوک کر رکھ دیا جس سے وہ بہت عاجز آگئے لیکن اپنی عادتوں سے وہ باز آنے والے نہیں تھے انجام کار ہولناک عذاب نے ان کو آگھیرا۔ آٹھ دن اور سات راتیں پیہم تیز و تند ہوا گھمنڈ میں سر مست تھے اس طرح بےحس و حرکت پڑے نظر آتے تھے جس طرح آندھی سے تناور درخت بےجان ہو کر گر جاتے ہیں اور اس طرح ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا تاکہ آنے والی نسلوں کے لئے درس عبرت بنیں۔ اس طرح گویا دنیاو آخرت کی لعنت اور عذاب ان پر مسلط کردیا گیا کہ وہ اسی کے مستحق تھے اور اس کا ذکر زیر نظر آیت میں کیا گیا ہے۔
Top