Urwatul-Wusqaa - Ar-Rahmaan : 11
فِیْهَا فَاكِهَةٌ١۪ۙ وَّ النَّخْلُ ذَاتُ الْاَكْمَامِۖ
فِيْهَا فَاكِهَةٌ ۽ : اس میں پھل ہیں وَّالنَّخْلُ : اور کھجور کے درخت ذَاتُ الْاَكْمَامِ : خوشوں والے
اس نے میوے اور کھجور کے درخت جن کے خوشوں پر غلاف ہوتے ہیں
اس میں کھجور کے درخت پیدا کیے جن کے خوشوں پر غلاف ہوتے ہیں 11۔ ان سب پر بحث تو ممکن ہی نہیں صرف ایک درخت پر غور کرو جس کو تم لوگ کجھور کے نام سے یاد کرتے ہو جو انسان کے لیے نہایت ہی نفع بخش درخت ہے کہ پھل لگنے سے شروع ہو کر پکنے اور خشک کرکے محفوظ رکھنے کے بعد تک کام آتا رہتا ہے ، تر اور خشک کھایا جاتا ہے ، بطور خوراک استعمال ہوتا ہے اور نہایت ہی کارآمد پھل ہے۔ اس پر خوشے ہوتے ہیں جن کو چیر کر یہ باہر آتا ہے پھر گدلا ہوتا ہے ، پھر تروتازہ ہوجاتا ہے اور پھر اپنے وقت پر پک کر تیار ہوجاتا ہے اور انسان کی طرح پانچ چھ اطوار سے گزر کر تیار ہوجاتا ہے جو انسان کے لیے بہت ہی نفع بخش ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ قیصر نے امیرالمئومنین عمر بن خطاب ؓ کو لکھا کہ میرے قاصد جو آپ کے پاس سے واپس آئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آپ کے ہاں ایک درخت ہوتا ہے جس کی خود خصلت کسی اور درخت میں نہیں پائی جاتی وہ جانور کے کان کی طرح زمین سے نکلتا ہے پھر کھل کر موتی کی طرح ہوجاتا ہے پھر سبز ہو کر زمرد کی طرح ہوتا ہے اور اس کے بعد سرخ ہو کر یا قوت جیسا بن جاتا ہے پھر پکتا ہے اور تیار ہو کر بہترین فالودے کے مزے کا ہوجاتا ہے پھر خشک ہو کر مقیم لوگوں کے بچائو کی اور مسافروں کے توشے بھتے کی چیز بن جاتا ہے پس اگر میرے قاصد کی یہ روایت صحیح ہے تو آپ مجھے اطلاع دیں کہ وہ درخت کیا درخت ہے ؟ عمر فاروق ؓ نے اس کا جواب دیا کہ بحمد اللہ یہ درخت اس ملک عزیز میں اکثر پائے جاتے ہیں اور یہ وہی درخت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سیدہ مریم کو کھانے کا حکم دیا تھا جب کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مریم رضی کے بطن سے تولد ہوئے تھے اسی تولد ہونے کے باعث ہی آپ سے کہہ رہا ہوں کہ آپ اللہ سے ڈریں اور عیٰسی (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا ، اللہ اور اللہ کا جزء قرار نہ دیں بلکہ وہ ایک انسان تھے جس طرح سارے انسان پیدا ہوتے ہیں اسی طرح وہ بھی پیدا ہوئے آپ اپنے اسی شرک سے باز آجائیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سچی اور حق بات یہی ہے جو میں نے آپ کو پہنچا دی ہے۔ “ زیر نظر آیت میں دوسرے میروں اور پھلوں کے ساتھ جس درخت کا ذکر کیا گیا ہے یہ درخت وہی کھجور کا درخت ہے جس کے (ذات الاکمام) ہونے کا ذکر ہے (الاکمام) کم کی جمع ہے اور کم کے معنی اس غلاف کے ہیں جو پھل کے اوپر لپٹا ہوا ہوتا ہے۔
Top