Urwatul-Wusqaa - Ar-Rahmaan : 24
وَ لَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَئٰتُ فِی الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِۚ
وَلَهُ الْجَوَارِ : اور اسی کے لیے ہیں جہاز الْمُنْشَئٰتُ : اونچے اٹھے ہوئے فِي الْبَحْرِ : سمندر میں كَالْاَعْلَامِ : اونچے پہاڑوں کی طرح
اور اس کے اختیار میں وہ جہاز ہیں جو سمندر میں پہاڑ کی طرح بلند ہیں
اور یہ جہاز جو پانیوں میں چلتے ہیں جیسے بلند پہاڑہوں اسی کی کرشمہ سازی ہے 42۔ (اَلَجوار) الجاریۃ کی جمع کشتیاں یا پانی کے جہاز (اَلمنثت) اسم مفعول جمع مئونث المنشاۃ واحد انشاء مصدر سطح سمندر سے اونچی کی ہوئی کشتیاں یا جہاز یا جن کشتیوں اور جہازوں کے بادبان اونچے ہوں اور دور سے دیکھنے والوں کو اونچے اونچے نشانات کی طرح نظر آئیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان پانیوں ، سمندروں اور دریائوں میں یہ جو کشتیاں اور جہاز چلتے تم لوگوں کو دکھائی دیتے ہیں ان پر تم خود سوار ہوتے ہو اور اپنے سامان وغیرہ کو لاد کرلے جاتے ہو اور لے آتے ہوں ان سب کا پیدا کرنا اور بنانا ، چلنا اور چلانا کس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے ؟ اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت کی نشانی ہے کیونکہ وہی ہے جو ان کا میٹریل (Material) تیار کرنے والا اور پیدا کرنے والا ہے اور اسی نے ان چیزوں میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ مدت تک پانی کے اندر رہ کر یہ چیزیں گل اور سٹر نہیں جاتیں اور ان میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ اتنی اتنی وزنی چیزیں ہو کہ اس میں ڈوب نہیں جاتیں اور صرف یہی نہیں کہ خود نہیں ڈوبتیں بلکہ تم کو اور تمہارے سامان کو بھی نہیں ڈوبنے دیتیں۔ وہ سامان اللہ تعالیٰ ہی کے پیدا کردہ ہیں جن سے یہ تیار کی جاتی ہیں اور وہ انسان اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں جنہوں نے ان کو بنایا اور تیار کیا اور ان کی عقل وفکر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔ پھر تعجب ہے تم پر کہ تم ان کشتیوں اور جہازوں کو دیکھ کر تو متعجب ہوتے ہو لیکن اس اللہ کی قدرتوں اور نشانیوں پر کبھی غور نہیں کرتے جس نے ان کے سامانوں کو پیدا کیا اور ان میں اس طرح کی صلاحیت ودیعت کی ، انسان جو خود مخلوق ہے اس نے کیا کیا ؟ یہی کہ اللہ تعالیٰ کی ان تخلیق کردہ چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل وفکر سے جوڑ دیا لیکن ان ساری چیزوں میں کسی ایک چیز کو بھی اس نے پیدا نہیں کیا اور نہ ہی وہ کرسکتا ہے۔
Top