Urwatul-Wusqaa - Ar-Rahmaan : 35
یُرْسَلُ عَلَیْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ١ۙ۬ وَّ نُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرٰنِۚ
يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا : چھوڑ دیا جائے گا تم پر شُوَاظٌ : شعلہ مِّنْ نَّارٍ : آگ میں سے وَّنُحَاسٌ : اور دھواں فَلَا تَنْتَصِرٰنِ : تو نہ تم دونوں مقابلہ کرسکو گے
تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑ دیا جائے گا پھر تم (اپنی) مدد بھی نہ کرسکو گے
تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑ دیا جائے گا ، تم اپنی مدد بھی نہ کرسکو گے 53۔ (شواظ) شعلوں کو کہتے ہیں جن میں دھواں نہ ہو۔ اسم ہے اور نحاس بھی اسم ہے اور مفسرین نے اس کا ترجمہ دھواں ہی کیا ہے۔ (مدارک ، جلالین ، خازن ، ابوسعود ، وصاوی) سعید بن جبیر اور کلبی کا بھی یہی قول ہے۔ عطاء نے ابن عباس ؓ سے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ لیکن بعض نے پگھلا ہوا تانبا جو دوزخیوں کے سروں پر ڈالا جائے گا اور (نحاس) کو المھل بھی کہا گیا ہے اور قرآن کریم میں (المھل) کا لفظ تین بار آیا ہے۔ سورة الکھف کی آیت 92 ، سورة الد خان کی آیت 54 ، سورة المعارج کی آیت 7 میں۔ اہل لغت نے (المھل) تیل کی تلچھٹ ، پگھلے ہوئے لوہے یا تانبے کے پانی اور زرولہو کے معنی لکھے ہیں اور امام راغب نے لکھا ہے کہ فالنحاس اللھیب بلادخان وذلک تشبیہ فی اللون بالنحاس یعنی (نحاس) سے مراد ہے بغیر دھوئیں کے لپٹ چونکہ لپٹ کا رنگ تانبے کی طرح ہوتا ہے اس لیے اس کو تشبیہا تانبا کہہ دیتے ہیں۔ اب زیر نظر آیت کا مفہوم کیا ہوا ؟ مطلب یہ ہوا ! کہ اگر تم نے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو جھٹلانے کی روش کو جاری رکھا اور اس کی قدرتوں کا اس طرح انکار کرتے رہے تو اس کا انجام دوزخ ہوگا اور دوزخ میں ڈال کر تم پر شعلہ دار آگ بھڑکائی جائے گی اور پگھلا ہوا تانبا یا دھواں چھوڑ دیا جائے اور ایسی حالت میں جو کچھ ہوتا ہے وہ تم سب کو معلوم ہے تم بھاگنے کی کوشش بھی کرو گے تو بھاگ نہیں سکو گے اور نہ ہی تم اپنی مدد آپ کرسکو گے۔ (شواظ) کے لفظ سے بعض لوگوں نے شہابیے مراد لیے ہیں اور شیطان کے لیے ان کو خاص قرار دیا ہے لیکن جو مفہوم ہم نے بیان کیا ہے وہ زیادہ واضح اور صاف ہے۔
Top