Urwatul-Wusqaa - Ar-Rahmaan : 68
فِیْهِمَا فَاكِهَةٌ وَّ نَخْلٌ وَّ رُمَّانٌۚ
فِيْهِمَا فَاكِهَةٌ : ان دونوں میں پھل ہیں وَّنَخْلٌ : اور کھجور کے درخت وَّرُمَّانٌ : اور انار
ان باغوں میں میوے ہوں گے اور کھجور اور انار
دونوں باغوں میں میوے ہوں گے اور کھجور اور انار بھی ؎ 86 زیرنظر آیت مفسرین کے درمیان ایک معرکۃ الآرا آیت ہے اور اس پر بہت بحث و تمحیص کی گئی ہے۔ بحث کیا ہے ؟ یہی کہ آیا کھجور اور انار بھی (فواکہ) یعنی میووں میں آتے ہیں یا نہیں ؟ پھر اکثر اس طرف گئے ہیں کہ کھجوریں ‘ چھوارے اور انار (فاکھۃ) نہیں ہیں حرف عطف ، معطوف علیہ اور معطوف کی مغابرت پر دلات کر رہا ہے اور یہی بات اصل اور صحیح ہے کہ معطوف معطوف علیہ سے غیر ہوتا ہے اس لیے نخل اور مان (فاکھۃ) سے دو الگ چیزیں ہیں (فاکھۃ) کے ذیل میں داخل نہیں ہیں۔ درخت خرما کا پھل تازہ یا خشک محض غذا ہے اور انار دوا ہے اور (فاکھۃ) وہ چیز ہوتی ہے جس کا مقصد صرف لذت ذوق ہوتا ہے پھر یہ بحث چلتے چلتے یہاں تک پہنچی کہ آیا کسی نے قسم کھالی کہ میں (فاکھۃ) نہیں کھائوں گا اور پھر اس نے کھجور خشک یا تر یا انار کھالیا تو قسم ٹوٹی یا نہیں ٹوٹی ، کفارہ ادا کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ پھر اس پر چاروں اماموں کے فتاویٰ اکٹھے کیے گئے ‘ ان کے دلائل بیان کیے گئے اور کسی نے قسم ٹوٹنے اور کسی نے نہ ٹوٹنے کا فتویٰ دیا اور اسی طرح کسی نے کفارہ ادا کرنے اور کسی نے کفارہ ادا نہ کرنے کی وضاحت کی۔ پھر بعض کے بیانات درج کیے گئے ہیں کہ کھجور اور انار (فاکھۃ) میں داخل ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ (فاکھۃ) کا لفظ عام ہے اور کھجور اور انار اس کی خاص قسمیں ہیں اور عام پر خاص کا عطف معطوف کی فضیلت اور اہمیت ظاہر کرنے کے لیے کردیا جاتا ہے جیسے جبریل اور میکائیل کا عطف ملائکہ پر کردیا جاتا ہے۔ پھر یہ بیانات جمع کیے گئے ہیں کہ جنت کے یہ پھل کتنے کتنے بڑے ہوں گے ؟ اور کسی نے کہا کہ عام ہی پھلوں کی طرح ہوں گے جیسے دنیا میں ہوتے ہیں اور کسی نے کہا کہ نہیں وہ تو ڈول اور مشکوں کے برابر ہوں گے اور وہ درخت جن پر یہ پھل لگیں گے وہ سونے ‘ چاندی اور زمرد کے ہوں گے۔ ان کے پتے ایسے ایسے ہوں گے اور پھل اتنے اور اتنے بڑے ہوں گے۔ یہاں تک کہ ایک انار کو ایک پالان کسے ہوئے اونٹ کے برابر بیان کیا گیا ہے اور اس سے دوسرے پھلوں کا اندازہ بھی لگا لیں لیکن ہم ان ساری بحثوں میں حصہ دار نہیں بننا چاہتے فقط اشارہ کیا ہے کہ زائد بحثوں میں الجھ کر بعض اوقات کتنی فضول بحث شروع ہوجاتی ہے کہ فرضی طور پر بات سے بات نکالتے ہوئے آدمی کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے اور اسی طرح کے بےلذت بحثوں میں قیمتی وقت کو ضائع کرنے تفسیر نہیں شغل کہلاتا ہے اور ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اکثر ہمارے مفسرین نے اس شعل میں نبی اعظم و آخر ﷺ کو بھی شامل کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اور ایسی روایات تفسیر کی کتابوں میں بھر دی ہیں جن کا تفسیر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
Top