Urwatul-Wusqaa - Ar-Rahmaan : 7
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان رَفَعَهَا : اس نے بلند کیا اس کو وَوَضَعَ : اور قائم کردی۔ رکھ دی الْمِيْزَانَ : میزان
اس نے آسمان کو بلند کیا اور اس نے میزان قائم کی
اسی نے آسمان کو بلند کیا اور اسی نے میزان قائم کی 7۔ آسمان کیا ہے ؟ (سَمَاؔئَ ) عربی زبان میں آسمان ، ابر ، بارش وغیرہ پر بولا جاتا ہے۔ چناچہ امام راغب لکھتے ہیں کہ ” ہر شے کا جو بالا ہے وہ (سَمَاؔئَ ) ہے۔ “ بعض نے کہا ہے کہ ہر (سَمَاؔئَ ) کے نیچے کی نسبت سے (سَمَاؔئَ ) اور اوپر کی نسبت سے ارض ہے۔ بجز (سماعلیھا) کے کہ وہ (سَمَاؔئَ ) ہی ہے (ارض) نہیں ہے نیز (مطر) (بارش) کو (سَمَاؔئَ ) سے موسوم کیا گیا ہے کیونکہ وہ اسی سے نکلتی ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ جب تک زمین پر نہ گرے (سَمَاؔئَ ) سے موسوم ہے یہ اس اعتبار سے ہے جو سابق میں مذکور ہوا اور (نبات) پر اگنے والی چیز کا نام (سَمَاؔئَ ) دیا تو اس لیے ہے کہ وہ مطر سے اگتی ہے جو کہ (سَمَاؔئَ ) ہے اور یا اس لیے کہ وہ زمین سے مرتفع ہے (سَمَاؔئَ ) جمع واحد مئونث مذکر دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ گویا ان اسماء اجناس کی طرح ہے کہ وہ مذکر بھی استعمال کیے جاتے ہیں اور مئونث بھی اور واحد وجمع بھی۔ (مفردات راغب) جو (سَمَاؔئَ ) کہ بمعنی مطر یعنی بارش ہے وہ مذکرہی استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کی جمع اسمیۃ آتی ہے۔ “ (ایضاً ) اور ابن خالویہ لغوی لکھتے ہیں کہ ” ہر وہ شے جو تجھ پر بلند ہو (سَمَاؔئَ ) ہے۔ اس لیے گھر کی چھت (سَمَاؔئَ ) سے موسوم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ....................................(الحج 22 : 15) ” جو آدمی مایوس ہو کر ایسا خیال کرچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی مدد کرنے والا نہیں ہے تو اس کے لیے گویا زندگی کی کوئی راہ باقی نہ رہی اسے چاہئے کہ ایک اس چھت تک لے جاکر باندھ دے اور اس میں گردن لٹکا کر زمین سے رشتہ اٹ لے پھر دیکھے کہ اس تدبیر نے اس کا غم وغصہ دور کردیا ہے یا نہیں ؟ “۔ (اعراب ثلاثین سورة من القرآٓن العظیم ص 37 ، 38 طبع دارالکتب المصری 1320؁ھ) امام نووی (رح) فرماتے ہیں کہ (سَمَاؔئَ ) یہی سقف معروف (آسمان) ہے سمر سے مشتق ہے جس کے معنی بلندی کے ہیں اس میں دونوں لغتیں ہیں تذکیر کی بھی اور تانیث کی بھی۔ ابوالفتح ہمدانی نے کہا ہے کہ تذکیر تین وجودہ میں سے کسی ایک وجہ کی بناء پر ہوتی ہے اول یہ کہ چھت کے معنی ہوں ، دوسرے باعتبار لفظ کے ، تیسرے اس بناء پر کہ وہ جمع مذکر ہے خواہ جمع واقع ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ اس صورت میں سماء کی جمع ہوگی جیسے عطا عطاء کی جمع ہے۔ ابوالفتح نے اس کو جمع سے ہی موسوم کیا ہے جو اہل لغت کی اصطلاح ہے لیکن اہل نحود صرف اس کو اسم جمع یا اسم جنس سے موسوم کرتے ہیں اور اس کو جمع نہیں کہتے۔ ابوالفتح کا بیان ہے کہ تانیث دو وجھوں سے ہوتی ہے ایک یہ کہ وہ ان اسماء کے باب سے ہے جو تانیث کے لیے موضوع ہیں جیسے انان اور عناق ہیں دوسرے یہ کہ وہ اہل حجاز کی لغت پر (سَمَاؔئَ ) کی جمع ہے کیونکہ وہ اس قسم کو مئونث استعمال کرتے ہیں۔ (تہذیب الاسماء واللغات ج اول ص 152 طبع منیریہ مصر) (المیزان) اسم مصدر اور اسم الہ۔ تول ، ترازو مجازی معنی عدل ، انصاف ، قانون ، عدل ، قواعد عدل یا تولنا۔ انسان کو توجہ دلائی گئی ہے کہ ذرا غور کرو اس نیلگوں چیز کو دیکھو جس کو تم فقط حد نظر کہتے ہو اس کو کس طرح بلند کیا ہے اور اس کے اندر کیا کچھ سمایا گیا ہے کہ تمہارے سمندروں سے بھی زیادہ پانی اس کے اندر ہے اور اس پانی کو اس طرح بھاپ بنا کر اڑا دیا گیا ہے کہ وہ ایک حد کر اس (Cross) کرنے کے بعد نظروں ہی سے اوجھل ہوجاتا ہے اور بیسیوں نہیں سکڑکوں سے بھی متجاوز قسم کی گیسیں ہیں جو انسانی زندگی کے لیے ہی نہیں بلکہ حیوانی زندگی کے لیے بھی مہلک ہیں اور ان کو اس طرح اس خلا کی حدود میں قید کردیا ہے کہ وہ کبھی اپنی حدود کو کر اس کرکے نیچے نہیں آتیں اور اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات ہے کہ یہ گیسیں آپس میں اگر ملا دی جائیں تو ان کے ملانے سے کچھ اور ہی بن جائے لیکن وہ اس فضا میں گھومتی پھرتی ہیں لیکن کبھی آپس میں مل نہیں جاتیں۔ ان کے لیے ایک تول مقرر کردیا ہے کہ اس توازن کو قائم رکھا گیا ہے اگر اس کے اندر زلزلہ آجائے تو پھر کیا سے کیا ہوجائے اس کی وضاحت ہم نے سورة الدخان آیت 10 میں اور سورة فصلت کی آیت 11 میں کردی ہے اور دونوں سورتیں غزوۃ الوثقیٰ کی اسی جلد میں موجود ہیں۔ جلد ہفتم سورة لقمان کی آیت 10 میں بھی اس کی وضاحت ملے گی ، وہاں سے ملاحظہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے جذب وکشش کے لیے ایسے اصولوں پر اس کو قائم کردیا ہے جن میں کبھی تغیروتبدل واقع نہیں ہوا۔
Top