بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Al-Hadid : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : تسبیح کی ہے۔ کرتی ہے لِلّٰهِ : اللہ ہی کے لیے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین میں وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
اللہ ہی کی تسبیح کرتا ہے جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہی زبردست حکمت والا ہے
اللہ تعالیٰ ہی کی تسبیح کرتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے 1 ؎۔ (سنبح) کا لفظ با کی تشدید اور زبر سے تین بار قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اگرچہ اس مادہ کے الفاظ بہت دفعہ استعمال ہوئے ہیں ۔ اس سے تسبیح ہے اور تسبیح اور تمہید اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے خاص ہے جو خاص الفاظ میں بطور وظیفہ بھی پڑھی جاتی ہے اور لا ریب وہ موجب خیر و برکت ہے لیکن اصل تسبیح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان نقائص سے جو لوگوں نے خوش فہمی اور کم عقلی کی بنا پر ان کی طرف منسوب کردیئے ہیں ۔ پاک و صاف کیا جائے جس طرح اصل تمحید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کمالات کو ظاہر کیا جائے اور اس کی صفات کو بیان کیا جائے ، لا ریب آسمان و زمین کی ایک چیز گواہی دے رہی ہے کہ ان کا خالق ومالک ہر نقص اور عیب سے پاک ہے خواہ وہ تسبیح ان کی زبان قال سے ہو یا زبان حال سے اور زبان قال سے تسبیح کرنے والوں کے مقابلہ میں زبان حال سے تسبیح کرنے والوں کی تعداد بہر حال زیادہ ہے کیونکہ زبان قال صرف اور صرف جن و انس کے پاس ہے باقی ساری مخلوق زبان حال سے تسبیح خواں ہے جیسا کہ دوسری جگہ قرآن کریم نے ہر ایک چیز کے تسبیح کرنے کا ذکر کیا ہے اور اس کی وضاحت ہم غزوۃ الوثقیٰ ، جلد چہارم سورة الرعد کی آیت 13 ، جلد پنجم سورة الاسراء کی آیت 44 جلد ششم سورة النور کی آیت 36 ، 41 میں بیان کر آئے ہیں ۔ اس جگہ سورة الحشر اور سورة الصف کی ابتدائی آیات میں اس کو صیغہ ماضی یعنی ( سبح) سے بیان کیا گیا ہے لیکن سورة الجمعہ اور سورة التغابن کا شروع ( یسبح) مضارع سے کیا گیا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ پہلے بھی ہر ایک چیز اس کی تسبیح کرتی رہی ہے ، اب بھی کر رہی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی اور یہ سلسلہ قیامت کے لیے ممتد ہے۔ پھرزیر نظر آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ آخر اس کی پاکیزگی کیوں بیان نہ کر یہ اور اس کی حمد کے گیت کیوں نہ گائے وہی ذات تو ہے جو عزیز بھی ہے اور رحکیم بھی اور صرف وہی ہے جو العزیز اور الحکیم ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ زبردست بھی ہے لیکن ساتھ ہی حکمت والا بھی ہے یعنی وہ جو کچھ کرتا ہے حکمت و دانائی کے ساتھ کرتا ہے اور یہ وضاحت اس لیے ضروری تھی کہ اکثر طاقت اور اندھا دھند طاقت کا استعمال کرتے ہیں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کوئی طاقتور طاقت کا مظاہرہ دانائی اور حکمت کے ساتھ کرے لیکن اللہ رب العزت کے لیے جہاں بھی یہ لفظ استعمال کیا گیا حکمت اور رحمت کو اس کے ساتھ ہی رکھ گیا ۔ بہت کم ایسا ہوا کہ اس کو عزیز ، العزیز اور عزیزا جس طرح بھی بیان کیا گیا اس کے ساتھ حکمت و رحمت کو نہ رکھا ہو بہت کم ایسا ہوا ہے کہ اس کے ساتھ قوی ، حبار اور مقتدر اور ذوانتقام کا لفظ استعمال ہوا ہو لیکن جہاں ہوا اس موقع اور جگہ کو دیکھنے سے معلوم ہوجائے گا کہ اس کی وہاں کیا ضرورت تھی اور اگر اس کے ساتھ حکمت و رحمت لگائی جاتی تو وہ کیوں صحیح نہ ہوتا اور اس کی وضاحت ہم کرتے آ رہے ہیں اگر ملاحظہ کرنا ہو تو عروۃ الوثقیٰ جلد 2 ، سورة ٔ آل عمران کی آیت 4 ، جلد سوم سورة ٔ المائدہ کی آیت 95 کی تفسیر دیکھیں۔
Top