Urwatul-Wusqaa - Al-Hadid : 23
لِّكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِۙ
لِّكَيْلَا : تاکہ نہ تَاْسَوْا : تم افسوس کرو عَلٰي مَا : اوپر اس کے جو فَاتَكُمْ : نقصان ہوا تم کو۔ کھو گیا تم سے وَلَا تَفْرَحُوْا : اور نہ تم خوش ہو بِمَآ اٰتٰىكُمْ ۭ : ساتھ اس کے جو اس نے دیا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا كُلَّ مُخْتَالٍ : ہر خود پسند فَخُوْرِۨ : فخر جتانے والے کو
تاکہ جو کچھ تم سے لے لیا گیا ہے اس پر غم نہ کھاؤ اور جو تم کو عطا ہوا اس پر اترا نہ جاؤ اور اللہ کسی اترانے والے اور شیخی بھگارنے والے کو پسند نہیں کرتا
تم سے جو چیز چلی جائے اس پر زیادہ افسردہ اور چیز مل جائے اس پر زیادہ خوش نہ ہو 23 ؎ گزشتہ آیت میں جو تم کو بتایا گیا ہے وہ اس لیے بتایا گیا ہے کہ زندگی میں سے جو چیز چلی جائے تم اس پر اس قدر غمگین نہ ہو کہ اس کے غم واندوہ میں تم بھی ہلاک ہونے لگو اور نہ اس چیز پر جو تم کو ملی ہے اترانے لگے اور فخر کرنے لگو کہ اپنے آپ سے باہر نکلنے لگو ۔ ہر بات میں اعتدال کرو اس لیے جو تم سے چلا گیا اس کو ہر حال میں جانا ہی تھا اور جو چیز تم کو دی گئی اس کو ہر حال میں دیا ہی جانا تھا۔ عام انسانوں کا وطیرا کیا ہے ؟ یہی کہ جب کوئی مصیبت ان پر پڑی تو وہ دل شکستہ اور مایوس ہو کر بیٹھ گئے اور اپنی قسمت کو کو سنے دینے لگے ، گردش روزگار کو سخت سست کہنے لگے اور حوصلہ ہار بیٹھے ، اٹھے تو کبھی پیروں کے پاس ، کبھی نجومیوں اور راملیوں کے پاس ، کبھی پامسٹوں اور جو گیوں کے پاس ، کبھی اعدادیوں اور اسی قبیل کے دوسرے لوگوں کے پاس کہ ہم کیا ہوا ، ہمارے کاروبار کو کیا ہوا ، ہماری بہو اور بیٹے کو کیا ہوا ، ہمارے خاندان اور برادری کو کیا ہوا اور اگر حالات ساز گار ہوئے ، کاروبار میں نفع ہونے لگا اور کھیتی باڑی اور باغات سے خوب فائدہ پہنچا تو پھر خوشی سے پھولے نہ سمائے ، لگے بھگنڑے ڈالنے ، ناچنے اور کو دنے کہ یہ ساری ہماری پیروں ، بزرگوں اور ولیوں کی برکت ہے اور اگر یہ نہیں تو اپنے فہم و ادراک اور زیر کی ڈینگیں مارنے لگے کہ یہ ساری کامیابیاں ان کی اپنی ہی ذہانت اور ہوش مندی کا نتیجہ ہیں ۔ اس طرح یہ دونوں حالتیں ہی انسان کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوتی ہیں ۔ ان دونوں آیات کا مضمون ملا کر دیکھو تو تم پر حقیقت واضح ہوجائے گی کہ جو مصیبت تم پر گزری اس سے تم کو کوئی مغر ہی نہ تھا وہ تمہارے مقدر میں تھی تم اس سے بچنے کی ساری صورتیں کرتے تو کبھی بچ ہی نہ سکتے تھے اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اس کو نوشتہ تقدیر کہہ کر خاموش ہو جائو اور صبر کا دامن مضبوطی سے تھام لو اگر لے سکتے ہو تو اپنا جائزہ لو اور اپنی صحیح جدوجہد جاری رکھو اور جو نعمتیں تم کو بخشی گئی ہیں وہ بھی تمہارے پیدا ہونے سے بھی پہلے جہاں تمہا را پیدا ہونا لکھا تھا وہ بھی لکھی تھیں تم ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو جس نے تم پر یہ انعامات کیے ہیں ، یہ اس کا فضل ہے وہی تم کو پیدا کرنے والا ہے اور وہی تم کو یہ خوشیاں عطا کرنے والا ہے ، تم اپنے مالک حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہو جائو اور اسی کے سامنے جھک جائو اور یاد رکھو کہ وہ شیخی بھگارنے والوں اور تکبر کرنے والوں کو کبھی پسند نہیں کرتا ۔ جس ماحول میں یہ سورت اور آیت نازل ہوئی اس ماحول پر نظر رکھو تو بات اور بھی واضح ہوجائے گی کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو اسوقت حالات کیا تھے ؟ یہی کہ ایک طرف دشمنوں کا ہر وقت خطرہ لگا ہوا تھا اور پے در پے لڑائیاں جاری تھیں۔ مسلمانوں کے ساتھ معاشی مقاطعہ کیا جاچکا تھا ، عرب کے کونے کونے میں ایمان لانے والوں سے ظلم و ستم ڈھائے جا رہے تھے ، بس اس طرح کی حالت تھی جس سے مسلمان گزر رہے تھے ۔ کفار ان کی بد شگونی کا نشان تصور کرتے تھے اور منافق ان کو اپنے شکوک و شبہات کی تائید میں استعمال کرتے تھے ۔ مخلص مسلمان ہی تھے جو ان حالات کے سامنے سینہ سپر تھے اور نہایت ثابت قدمی کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کر رہے تھے ۔ تا ہم انسان انسان ہی ہے وہ بعض اوقات مصائب کے ہجوم کے سامنے ڈھیلا بھی پڑ سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ان کو سہارا دیا اور ایسا گر ان کے سامنے پیش کردیا جو ہر طرح کی زندگی میں کام آنے والا تھا اور پھر اس کی اتنی سچی تصویر کھینچی جس سے زیادہ سچی تصویر نہیں کھینچی جاسکتی تھی اور مسلمانوں کو اس حالت سے نکالنے کے لیے ان کی اس طرف ہمت بندھائی کہ وہ کسی معاملہ میں اگر ڈھیلے ہو بھی رہے تھے تو انکی قوت ایمانی کو اور زیادہ مضبوط کردیا جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام پہنچا کہ تم یاد رکھو کہ تم پر کوئی مصیبت بھی معاذ اللہ تمہارے رب کی بیخبر ی کے باعث نازل نہیں ہوگئی ، جو کچھ تم کو پیش آ رہا ہے یہ مشیت خداوندی کے مطابق ہے گویا یہ تمہاری آزمائش ہے جو آزمائش پر آزمائش کے طور پر کی جا رہی ہے اور یہ رب کریم کی ایک سکیم کے تحت ہو رہا ہے جو کچھ ہو رہا ہے۔ جو کام تم سے اللہ تعالیٰ نے لینے ہیں وہ لینے ہی ہیں ، تم کو ڈھیل ملی ، یقین نہیں بلکہ پختہ یقین ہونا چاہئے جہاں مشکلات ہیں وہاں آسانیاں بھی ہیں ، جہاں مصیبت ہے وہاں خوشیاں بھی ہیں ۔ یہ دنیا اضداد پر قائم ہے اچھی طرح سمجھ لو ، سن لو اور یاد رکھو کہ ہر تعمیر سے پہلے تخریب لازم و ضروری ہے جب تخریب نہیں ہوگی تو تعمیر کا وجود قائم ہی نہیں ہو سکتا اس لیے ہمت نہ ہارو قدم بہ قدم آگے بڑھنے کی کوشش کرو اور جب تم کو ان مصائب کی جگہ خوشیاں نصیب ہوں جو یقینا ہوں گی تو اس وقت بھی یہ اصول تم کو یاد رکھنا ہوگا کہ ان خوشیوں کے دور میں ہم کو اترانا اور پھولنا نہیں ہے بلکہ اس کی حمد کے گیت گانے ہیں جو مصائب کو دور کرنے والا اور خوشیاں لوٹانے والا ہے ، پھر مزید وضاحت آگے آرہی ہے۔
Top