Urwatul-Wusqaa - Al-Hashr : 8
لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَۚ
لِلْفُقَرَآءِ : محتاجوں کیلئے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجر (جمع) الَّذِيْنَ : وہ جو اُخْرِجُوْا : نکالے گئے مِنْ دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں سے وَاَمْوَالِهِمْ : اور اپنے مالوں يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا، سے وَرِضْوَانًا : اور رضا وَّيَنْصُرُوْنَ : اور وہ مدد کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ کی وَرَسُوْلَهٗ ۭ : اور اس کے رسول اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الصّٰدِقُوْنَ : سچے
(یہ مال) ان مفلس مہاجروں کے لیے ہے جو اپنے وطن اور مال سے جدا کردیئے گئے ہیں (یعنی ہجرت پر مجبور کردیئے گئے ہیں اس لیے انہوں نے ہجرت کی ہے) جو اللہ کے فضل اور اس کی رضا کی تلاش میں ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مدد کرتے ہیں یہی لوگ سچے (مسلمان) ہیں
جن لوگوں پر اموال فے خرچ ہوں گے ان کا مزید ذکر 8 ؎ گزشتہ آیت میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا تھا ( الفقر او المھاجرین) بھی ان میں داخل ہیں یا یہ لوگ ان سے زائد ہیں ؟ اس پر ہمارے مفسرین نے بہت بحث کی ہے اور اس سلسلہ میں بہت لمبا اور مفصل بیان دیا ہے۔ ہم ان لوگوں کو گزشتہ لوگوں سے زائد لوگ سمجھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ان کی اہمیت کے پیش نظر ان کو الگ کر کے بیان کیا گیا ہے تا ہم یہ اس وقت کی وقتی ضرورت تھی جس کو ہمیشہ باقی نہیں رہتا تھا کیونکہ مہاجرین جب نئے نئے آباد ہوئے اس وقت تو ان کی اہمیت سب دوسرے لوگوں سے اولیت رکھتی تھی لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ضروری نہیں تھا کہ مہاجرین فقرا ہی رہیں بلکہ یہ لوگ انصار سے بھی زیادہ مالدار ہو سکتے تھے اور ہوئے۔ فے کا قانون تو ابدی قانون تھا نہ کہ وقتی پھر چونکہ مہاجرین و انصار کی تقسیم ایک طرح کی قدرتی تقسیم بھی تھی جس کو بطور نام باقی رہتا تھا اس لیے مہاجرین کے ساتھ ( الفقراء) کی قید بھی بڑھا دی گئی تاکہ اس تقسیم کے بعد جو قدرتی اور فطرتی ہے ان لوگوں کی پہچان ( الفقراء) کے نام سے یاد رہے جو عام غریبوں ، مسکینوں اور یتیموں سے بھی زائد ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا گھر بار اور زمینیں اور باغات بلکہ سب کچھ ہی چھوڑ چھاڑ کر نکل آئے تھے اور ان کو اس نئے ماحول میں فٹ (Fit) ہونے کے لیے زیادہ وقت درکار تھا اس لیے ان کی ضروریات کا زیادہ خیال رکھنا ایک فطری امر تھا پھر یہ لوگ نبی کریم ﷺ کے قریبیوں میں بھی داخل تھے اگرچہ ان میں بھی الا قرب فالاقرب کا قانون جاری وساری تھا۔ اس طرح گویا ان لوگوں کا آپ ﷺ پر دوہرا حق تھا ایک فقیر ہونے کا اور دوسرا مہاجر ہونے کا ۔ اوپر ہم نے ذکر کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی رضا کے لیے اپنے گھر بار چھوڑے تھے اور ظاہر ہے کہ ان کے گھر بار چھوڑنے کی صورت کیا تھی ؟ وہ یہی تھی کہ ان کو گھروں سے نکل جانے پر مکہ کے لوگوں نے مجبور کردیا تھا لیکن کس پاداش میں ؟ اس عوض میں کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کی تعریف میں جگہ جگہ ارشاد فرمایا ہے اور زیر نظر آیت میں بھی ان کی تعریف میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضا کی تلاش میں اپنے گھروں اور مال و منال سے جدا کرا دیئے گئے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول محمد رسول ﷺ کی مدد کرتے ہیں اور لاریب یہ لوگ سچے اور پکے مسلمان ہیں “۔ یہ کون لوگ ہیں ؟ غور کیجئے اور پھر سوچنے کہ کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں جنہوں نے نبی اعظم و آخر ﷺ سے قبل مکہ سے ہجرت کی اور آپ ﷺ کے ساتھ مہاجر ہوئے اور آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی خاطر اپنی ہرچیز کو چھوٹ کر آپ ﷺ سے آ ملے ، کون ہے جو اس کی تردید کرے ؟ پھر ان سب کو باقی مسلمانوں سے الگ کر کے ان کی تعریف اللہ تعالیٰ خود بیان کرے اور قرآن کریم جیسی ابدی تعلیم کے اندر ان کے کردار اور اخلاق کا سرٹیفکیٹ (Certificate) عطا فرما دے اور آج کچھ لوگ ان کے ایمان کی جانچ پڑتال شروع کردیں اور اس کے باوجود وہ مسلمان بھی کہلائیں ۔ کیا ان کو ایمان والے کہنا ہی ایمان کی توہین نہیں تو اور کیا ہے ؟ ہمیں افسوس ہے کہ جن لوگوں کے ایمان کی شہادت خود اللہ رب ذوالجلال والاکرام دے ان کے ایمان کی جانچ کرنے والوں کو مسلمان کہا جائے تو اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے ؟ لیکن افسوس کے مسلمان کہلانے والوں نے اتنے بڑے ظلم کو بھی جائز اور روا رکھا اور ایمان والوں پر کفر کے فتوے صادر کیے لیکن ہمارے ایمان کا تقاضا بالکل اس کے برعکس ہے۔ ہم ایسے لوگوں کو قطعا ً مسلمان نہیں سمجھتے اور نہ ہی سمجھ سکتے ہیں کوئی ہم کو خواہ کچھ کہے اور کچھ سمجھے ہماری ایمانی غیرت کا تقاضا ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو اسلام سے خارج سمجھیں اس لیے ہم نے اس کی وضاحت ان سخت الفاظ میں کردی ہے۔ زیر نظر آیت میں مہاجرین کی تعریف میں بیان تھا اور آنے والی آیت میں انصار کے مناقب بیان کیے جا رہے ہیں اور دونوں گروہوں کی ایمانی طاقت و قوت کا واضح بیان ہے۔ اللھم زدفزد۔
Top