Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 108
وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ كَذٰلِكَ زَیَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ١۪ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَ
: اور
لَا تَسُبُّوا
: تم نہ گالی دو
الَّذِيْنَ
: وہ جنہیں
يَدْعُوْنَ
: وہ پکارتے ہیں
مِنْ
: سے
دُوْنِ اللّٰهِ
: اللہ کے سوا
فَيَسُبُّوا
: پس وہ برا کہیں گے
اللّٰهَ
: اللہ
عَدْوًۢا
: گستاخی
بِغَيْرِ عِلْمٍ
: بےسمجھے بوجھے
کَذٰلِكَ
: اسی طرح
زَيَّنَّا لِكُلِّ
: ہم نے بھلا دکھایا ہر ایک
اُمَّةٍ
: فرقہ
عَمَلَهُمْ
: ان کا عمل
ثُمَّ
: پھر
اِلٰى
: طرف
رَبِّهِمْ
: اپنا رب
مَّرْجِعُهُمْ
: ان کو لوٹنا
فَيُنَبِّئُهُمْ
: وہ پھر ان کو جتا دے گا
بِمَا
: جو وہ
كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ
: کرتے تھے
اور جو لوگ اللہ کے سوا دوسری ہستیوں کو پکارتے ہیں تم ان کے معبودوں کو گالیاں نہ دو کہ پھر وہ بھی حق سے متجاوز ہو کر بےسمجھے بوجھے اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں گے ہم نے اس طرح ہر قوم کے لیے اس کے کاموں کو خوشنما کردیا ہے پھر بالآخر سب کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے اس وقت وہ ان سب پر ان کے کاموں کی حقیقت کھول دے گا جو وہ کرتے رہے ہیں
معبود ان باطل کو بھی گالیاں نہ دو کہ وہ تمہارے حقیقی معبود کا گالیاں دیں گے : 161: پچھلی آیات میں توحید کا بیان تھا اور شرک پر سخت تنقید ہوئی ہے اس کا تقاضایہ ہوا کہ مسلمانوں کو ہدایت کردی گئی کہ شرک کی مذمت کا ایک اپنا مقام ہے اس مقام سے تجاوز نہ اختیار کرنے لگو ورنہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ مخالفین و معاندین حق کو سمجھنے کی بجائے مزید ضد میں آجائیں گے اور ضد میں کیا ہوتا ہے ؟ سب کو معلوم ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے اس قسم کی توقع تو یقیناً نہ تھی اور نہ ہی ہو سکتی تھی لکنت پر جوش مسلمان اگر ان معبود ان باطل کو سخت ست کہنا شروع کردیں جن کو مشرکین پوجتے ہیں تو وہ اپنی بھڑاس نکالنے کے لئے معبود حق یعنی اللہ تعالیٰ کے متعلق اسی طرح سخت ست کہیں گے جس کا نتیجہ درست ہونے کی بجائے نہایت غلط برآمد ہوگا۔ یہ دور چونکہ بحث کی گرما گرمی کا تھا اور اس میں حدود کا خیال بالعموم نہیں رہتا اور اسلام کی تعلیمات کے یہ بات سراسر خلاف ہے کہ کسی دشمن سے دشمن انسان کو بھی اخلاق سے گری ہوئی بات کہی جائے بلکہ اسلام تو جہاں تک ہو سکے برداشت کرنے کی تلقین کرتا ہے اور کسی کے جذبات کو مشتعل کرنا وہ کبھی پسند نہیں کرتا اور دعوت کے نقطہ نظر سے بابرکت اور نتجہ خیر طریقہ یہی ہے کہ بات اصول و عقائد تک ہی محدود رہے تاکہ مخاطب کے اندر کسی بےجا عصبت کا جذبہ جاہلی ابھرنے نہ پائے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کا ایک مناظرہ سورة آل عمران کی آیت 47 ، 48 کے تحت بیان ہوا ہے جو عروۃ الوثقیٰ جلد دوم کے ص 189 سے شروع ہو کر بیان ہوا ہے جو نجران کے عیسائیوں نے آپ ﷺ سے کیا تھا۔ نجران کے علمائے نصاریٰ بڑے تمطراق کے ساتھ آئے اور آتے ہی گرما گرمی میں ایسا احساس سوال سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش اور ” ابن اللہ “ ہونے کے متعلق چھیڑ دیا وہ کچھ سوچ کر آئے تھے وہ سوائے اشتعال کے اور کچھ نہ تھا لیکن آپ ﷺ نے بغیر کسی اشتعال اور مناظرانہ انداز اختیار کرنے کے باتوں ہی باتوں میں ان سے وہ سب کچھ منوا لیا جو کسی بحث و تکرار کے نتیجہ میں کبھی ان سے منوایا نہیں جاسکتا تھا اور آپ ﷺ کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی وہ اشاروں میں سب ایک ودسرے کے ساتھ بھاگ جانے کے لئے تیار ہوگئے تھے اور ایسے گئے کہ دوبارہ واپس آنے کا کبھی نام نہ لیا۔ قرآن کریم نے جہاں بھی توحید کا بیان دیا اور شرک کی پرزور الفاظ میں مذمت کی تو الفاظ ایسے استعمال کئے کہ جن سے دریا کو زے میں بند کر کے رکھ دیا گیا۔ کفار نے آپ ﷺ کو جھٹلایا۔ آپ ﷺ کو مجنون کہا۔ آپ ﷺ کو کاہن قرار دیا آپ ﷺ کو شاعر کہہ کر بلایا گیا۔ آپ ﷺ کو جادوگر اور جادو کیا گیا ، کہا گیا آپ کو کاہن ، قرآن کریم کو جنوں اور شیطانوں کا القا کردہ کلام کہا گیا لیکن آپ ﷺ نے ان سارے الزامات کے جواب میں ان کو عقل وفکر کی دعوت پیش کی اور ان کو غور و فکر کرنے اور سوچنے سمجھنے کا کہا۔ ان جوابات کو سن کر ان کو سب و شتم کا ہدف بنانے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی باقی نہ رہتی اگر اس بحث کے جوش میں ان چیزوں کو لوگ برا بھلا کنا شروع کردیتے جن کی عقیدت پشتہا پشت سے مشرکین کے دلوں میں رچی بسی ہوئی تھی تو اس کا نفساتی اثر ان پر یہی پڑ سکتا تھا کہ وہ مشتعل ہو کر نعوذ باللہ اللہ میاں کو گالیاں دینے لگتے اور کوئی بات بھی سننے کے لئے تیار نہ ہوتے۔ ویسے بھی غور کریں تو معلوم ہوگا کہ مشرکین کے معبودوں کو برا بھلا کہنے کی ضرورت کیا ہے ؟ اگر وہ محض خیال اور وہمی چیزیں ہیں تو اس طرح سایہ سے لڑنے کا فائدہ ؟ اور اگر وہ فرشتوں ، نبیوں اور ولیوں ، بزرگوں کے زمرے سے تعلق رکھنے والے ہیں تو ان کا بر بھلا کہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مختصر یہ کہ یہ چیز دعوت کے نقطہ نظر سے بھی غلط ، عقل و انصاف کے پہلو سے بھی غلط اور اس لحاظ سے بھی غلط کہ مشرکین کے معبود باطل کو برا بھلا کہہ کر اللہ رب العزت کو برا بھلا کہلایا اور اس کو گالیاں دینے کی راہ کھول لی آخر کیوں ؟ مفسرین نے اس آیت کے شان نزول میں بہت کچھ بیان کیا ہے اور ابوطالب کی وفات کا قصہ اس جگہ بیان کیا ہے اور کفار مکہ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو دھمکی بھی اس سلسلہ میں سنایا بتایا ہے لیکن ان سارے قصوں کو اس آیت سے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی اور تفسیری روایات جو اس سلسلہ میں بیان کی گئی ہیں سب اس ضمن میں نہیں آتیں اور اس آیت سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ جو بات اپنی ذات کے اعتبار سے محمود ہو بلکہ وہ افضل و اجمل اور اکمل بھی ہو تو فساد لازم آنے کی وجہ سے اس کو ترک کردینا ضروری ہے اور فقہاء نے اس اصل سے یہ قاعدہ مستنبط کیا ہے کہ جو طاعت درجہ واجب میں نہ ہو اور کسی معصیت کا سبب بن جاتی ہو تو اس طاعت کو ترک کردیا جائے کیونکہ ان کے خیال میں بتوں کو برا کہنا فی نفسہ امر مباح ہے مگر جب وہ ذریعہ بن جائے ایک امر حرام یعنی گستاخی بہ جناب باری تعالیٰ کا تو وہ بھی قبیح بن جائے گا اور پھر اس اصول کے تحت انہوں نے ایسے عقائد کو بیان کیا جو کتاب و سنت کی تعلیمات کے تو سراسر خلاف ہیں لیکن زبان زد خاص و عام ہونے کے لحاظ سے عوام میں معروف سمجھے جاتے ہیں تو ایسے عقائد کو بطور عقیدہ مانتے ہی چلے جانے میں بھلائی ان کو نظر آتی ہے اور اس طرح انکے درست ہونے کی ترجمانی ان کے نزدیک تردید سے زیادہ بہتر انسب اور اعلیٰ ہے۔ ایک طرف تو ان کی یہ دلیل ہے لیکن دوسری طرف اندرونی جھگڑے اور فتنے جو ان کی گروہ بندی کا نتیجہ ہیں ان کو پکا کرنے اور ان پر لڑنے اور مر مٹنے کو وہ عین اسلام سمجھتے ہیں اور اس طرح کی لڑائی بھڑائی کو دین کا اہم جزو قرار دیتے ہیں۔ اس لئے اس ملک میں یہ سب کچھ زوروں پر ہے اور کوئی اس کو برا نہیں کہتا حالانکہ یہ استنباط کسی حال میں بھی درست نہیں بلکہ یہ سراسر گمراہی اور جہالت ہے۔ صحیح مثال اس کی اس طرح پر دی جاسکتی ہے جس طرح نبی اعظم و آخر ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک روز رسول اللہ نے صحابہ کرام ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ” یاد رکھو کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی نہ دے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ یہ تو کسی شخص سے ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے ماں باپ کو گالی دے فرمایا ” ہاں انسان خود ان کو گالی نہیں دیتا لیکن جب وہ کسی دوسرے شخص کے ماں باپ کو گالی دے اور اس کے نتیجہ میں وہ دوسرا اس کے ماں باپ کو گالی دے تو اس گالی دلوانے کا سبب یہ بیٹا بنا تو یہ بھی ایسا ہی ہے جیسے اس نے خود گالی دی۔ “ اس طرح کی اور مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں جو اس آیت کی تشریح کہلاسکتی ہیں۔ ہر قوم اپنے کاموں اور اپنے عقیدوں کو اچھی نگاہ سے دیکھتی ہے : 162: مذہب چونکہ فطرت میں داخل ہے اس لئے ہر قوم کا فطری تقاضا ہے کہ جو مذہب اس کو من حیث القوم دیا گیا ہے وہ اس سے فطری محبت رکھے اس کی مثال آپ اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ایک سو بچے ایک مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کچھ بچے بہت خوبصورت اور نہایت ہی ذہین و فطین ہیں اور کچھ درمیان حالت کے بھیی ہیں جن کو نہ تو خوبصورت کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی ذہن و فطین لیکن اس کے باوجود وہ بد صورت ، پھسڈی بھی نہیں کہلاتے اور کچھ ان کے سامنے بھی نہایت بدصورت اور کم عقل اور گندے نظر آتے ہیں جن پر نہ کوئی سزا اثر کرتی ہے اور نہ ہی جرمانہ۔ ان میں سے کسی ایک بچے کا باپ سکول میں آئے تو وہ کسی اچھے اور خوبصورت بچے کو گود میں لے کر پیار کرنے لگے گا ؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اپنے اس گندے اور بدصورت ہی کو گود میں لے گا اور اسی سے پیار کرے گا کیوں ؟ اس لئے کہ اس کو فطرت مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے بچے سے پیار کرے بالکل یہی صورت مذہب کی ہے۔ جب تک مذہب کو من حیث العقل اور نہایت گہرائی میں اتر کر مطالعہ کرنے کے بعد منتخب نہ کیا جائے اس وقت تک اس کی برائی اور اچھائی سمجھ میں نہیں آتی اس لئے ہر شخص اس بچے ہی کی طرح اس سے محبت کرنے پر مجبور ہوگا جس نے اس کو اپنا مذہب سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہندوگائے کو اس طرح مقدس خیال کرتا ہے جس طرح ایک عیسائی گدھے کو۔ اس لئے ہندوگائے کا پیشاب مقدس خیال کرتا ہے اور عیسائی گدھے کے نشان کو۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس لئے کہ انہوں نے اپنے اپنے مذہب میں ان چیزوں کو مقدس سمجھا ہے اور یہ نظریہ انہوں نے اپنے آباؤ اجداد سے پایا تھا جس پر انہوں نے غور وفکر کی ضرورت نہیں سمجھی۔ سب کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے وہاں ہر بات کا انجام کھل جائے گا : 163: فرمایا ہر قوم کو اپنی روایات سے گہری دلچسپی اور وابستگی ہوتی ہے اور یہ چیز اس فطرت کے تقاضوں میں سے ایک ہے جو خود اللہ نے انسان کے اندر ودیعت کی ہے اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ جو خلاف فطرت چیز فطرت کے اندر گھس آئی ہے وہ اس سے دور کی جائے لیکن اس انداز اور اس طریقہ سے کہ خود فطرت پر کوئی جارہانہ حملہ کرنے کی غلطی نہ کی جائے۔ ہاں ! بلاشبہ اگر لوگ حق واضح ہوجانے کے باوجود اپنی غلطیوں پر مصر رہیں گے تو مجرم بھی وہ خود ہی ٹھہریں گے اور قیامت کے دن رب کریم کے سامنے وہ جواب دہ بھی یقیناً ہوں گے۔ اہل ایمان پر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ پھر آپ کیوں ضرورت سے زیادہ مضطرب اور اپنی حدود و تبلیغ سے متجاوز ہوں ؟ اور اس بات پر حیران کیوں ہوں کہ ایسی شدید گستاخی پر دنیا میں فی الفور سزا کیوں نہیں مل جاتی۔ وہ خود اس بات کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں تو آزادی عمل کا قاعدہ ہم نے مقرر کر رکھا ہے جو وہ بھول گئے ہیں اس لئے اس طرح کے اوہام کا ان کو سامنا ہے لیکن ہم بھولنے والے نہیں اس لئے کہ ہم نے اس عالم کا نام عالم ابتلاء رکھا ہے اور اس کو دار العمل کے نام سے موسوم کیا ہے اور دار الجزاء اس دار العمل سے خروج کے بعد شروع ہوگا۔ بس اس بات کو تم بھی یاد رکھو کہ تمہارا اور ان سب کا لوٹ کر ہماری طرف آنا ضروری ہے اور اس روز ہر چھپی بات ظاہر کردی جائے گی اور ہر عمل کی جزا مل کر رہے گی۔ ہمارا فیصلہ ہے اور ہمارا فیصلہ کبھی غلط نہیں ہوتا۔
Top