Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 118
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰیٰتِهٖ مُؤْمِنِیْنَ
فَكُلُوْا : سو تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو ذُكِرَ : لیا گیا اسْمُ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلَيْهِ : اس پر اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو بِاٰيٰتِهٖ : اس کی نشانیوں پر مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
پس جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہے اسے بلا تامل کھاؤ اگر تم اللہ کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو
جس چیز پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اس کو بلاتامل کھاؤ بشرطیکہ وہ حلال ہو : 179: وہ اشیاء جن کا کھانا حرام ہے قرآن کریم میں چار جگہ صاف صاف الفاظ میں بیان کی گئی ہیں اور وہ یہ ہیں ” مردار “ ” خون “ ” سور کا گوشت “ اور وہ جانور یا کوئی اور چیز جو غذائی طور پر استعمال ہوتی ہو۔ اس کو اللہ کے سوا کسی اور نام کی طرف منسوب کیا گیا ہو یا جانور کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو حرام ہے۔ یہ حکم قرآن کریم میں چار جگہ بیان ہوا ہے مکی سورتوں میں سورة انعام کی آیت 145 اور سورة نحل کی آیت 115 میں اور مدنی سورتوں میں سورة البقرہ کی آیت 173 اور سورة المائدہ کی آیت 3 میں اس کا اعادہ کیا گیا ہے اور پھر اس سورة المائدہ میں اس کی مزید تشریح بھی کردی گئی ہے ملاحظہ کریں تفسیر عروۃ الثقی جلددوم المائدہ کی آیت 3۔ زیر نظر آیت میں اس پر قید مزید بڑھائی گئی ہے کہ اس حلال جانور کو شریعت کے حکم کے مطابق اللہ کا نام لیتے ہوئے قتل یعنی ذبح کیا گیا ہو اس طرح ” بسم اللہ اللہ اکبر “ کے الفاظ بھی ضروری قرار دیئے گئے ذبح کرتے وقت ذابح ان الفاظ کو بھی ادا کرے اور گلے پر چھری چلا کر نخاح تک نہ کاٹ دے بلکہ حلقوم ومری اور دجین کاٹ دی جائیں۔ شکار کی صورت میں سدھایا گیا جانور چھوڑتے وقت ان الفاظ کا ادا کرنا ہی کافی ہے اور اسی طرح بندوق یا کوئی تیز دھار آلہ چلاتے وقت بھی یہ الفاظ پڑھ لئے جائیں۔ ذبح کرنے والا مرد ہو یا عورت ، بالغ ہو یا سمجھدار نابالغ۔ آلہ تیز دھار ہونے کی صورت میں گردن کٹ جائے تو مضائقہ نہیں۔ ہاں ! حرام اشیاء یا حرام جانور پر اللہ کا نام لیا جائے تو اس طرح وہ حلال نہیں ہو سکتا۔ سورة المائدہ کی آیت 3 میں جو بات بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جس جانور کی موت تذکیہ سے واقع ہو صرف وہی حرمت کے حکم سے مستثنیٰ ہے باقی تمام وہ صورتیں جن میں تذکیہ کے بغیر موت واقع ہوجائے حرمت کا حکم ان سب پر حاوی ہوگا اور تذکیہ کے مفہوم کی کوئی تشریح قران کریم میں نہیں کی گئی اور نہ ہی لغت اس کی صورت متعین کرنے میں کوئی خاص مدد کرتی ہے اس لئے لامحالہ اس کے معنی متعین کرنے کیلئے ہم کو سنت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ سنت میں اسکی دو شکلیں بیان کی گئی ہیں ایک شکل یہ کہ جانور ہی ہمارے قابو میں نہیں مثلاً جنگلی جانور ہے جو بھاگ رہا ہے یا اڑ رہا ہے یا وہ ہمارے قابو میں تو ہے مگر کسی وجہ سے ہم اس کو باقاعدہ ذبح کرنے کا موقع نہیں پاتے اس صورت میں جانور کا تذکیہ یہ ہے کہ ہم کسی تیز چیز سے اس کے جسم کو اس طرح زخمی کردیں کہ خون بہہ جائے اور جانور کی موت ہمارے پیدا کردہ زخم کی وجہ سے خون بہنے کی بدولت واقع ہو۔ رسول اللہ ﷺ سے اس صورت کا حکم ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ ” جس چیز سے چاہو خون بہا دو ۔ “ (ابو داؤد۔ نسائی) دوسری شکل یہ ہے کہ جانور ہمارے قابو میں ہے اور ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ذبح کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں باقاعدہ تذکیہ کرنا ضروری ہے اور اس کا طریقہ سنت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اونٹ اور اس کی مانند جانور کو نحر کیا جائے اور گائے بکری یا اس کی مانند جانوروں کو ذبح کیا جائے۔ نحر سے مراد یہ ہے کہ جانور کا ایک پاؤں باندھ کر حلقوں میں نیزے جیسی تیز چیز زور سے چبھائی جائے تاکہ اس سے خون کا فوارہ چھوٹے اور خون بہ بہ کر جانور بالاخر بےدم ہو کر گر جائے اوٹ ذبح کرنے کا یہ طریقہ عرب میں معروف تھا اور قرآن کریم میں اس کا ذکر کیا گیا ہے ( سورة الحج) اور سنت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ اس طریقہ سے اونٹ ذبح کیا کرتے تھے۔ رہا ذبح تو اس کے متعلق حدیث میں اسطرح وارد ہوا ہے کہ : ” حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حج کے موقع پر بدیل بن ورقا خزاعی کو ایک خاکستری رن کے اونٹ پر بھیجا تاکہ منیٰ کے پہاڑی راستوں پر یہ اعلان کردیں کہ ذبح کی جگہ حلق اور لبلبہ کے درمیان ہے اور ذبح کی جان جلدی سے نکال دو یعنی گردن کے اوپر سے نہیں کہ پہلے نخاح کٹ جائے بلکہ اندرونی حصہ سے جہاں نرخرہ واقع ہے۔ (طبرانی) مشرکین مکہ کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ محمد ﷺ اور اس کو نبی ماننے والے عجیب لوگ ہیں کہ جس چیز کو اللہ ماردے اسے تو حرام سمجھتے ہیں اور جسے یہ خود مارتے ہیں (ذبح کرتے ہیں) اسے حلال جانتے ہیں اس کے متعلق فرمایا کہ یہ شیطانی وسوسے ہیں۔ ان کا کہنا ہی سرے سے غلط ہے کہ جو چیز خود مرے اس کو خدا نے مارا اور جس کو ذبح کیا جائے اس کو ذبح کرنے والے نے مارا۔ اسلام کے نزدیک ہرچیز کا مارنے والا اللہ ہی ہے۔ اس طرح تو پھر کوئی چیز بھی حرام نہ ہوئی۔ ایسا نہیں بلکہ حرام و حلال کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی لازمی ہے۔ اپنے ڈھکو سلوں اور قیاس آرائیوں سے کام لینا ایمان کے خلاف ہے۔ جس حلال جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے وہ حلال ہے اسے بلاتامل کھاؤ کیونکہ وہ اس کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ذبح کیا گیا ہے اور دم مسفوح میں کیا مضمرات ہیں اس بات کو ابھی تم نہیں جان سکتے۔
Top