Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ١ؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے فَرَّقُوْا : تفرقہ ڈالا دِيْنَهُمْ : اپنا دین وَكَانُوْا : اور ہوگئے شِيَعًا : گروہ در گروہ لَّسْتَ : نہیں آپ مِنْهُمْ : ان سے فِيْ شَيْءٍ : کسی چیز میں (کوئی تعلق) اِنَّمَآ : فقط اَمْرُهُمْ : ان کا معاملہ اِلَى اللّٰهِ : اللہ کے حوالے ثُمَّ : پھر يُنَبِّئُهُمْ : وہ جتلا دے گا انہیں بِمَا : وہ جو كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : کرتے تھے
جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور الگ الگ گروہ بن گئے تمہیں ان سے کچھ سروکار نہیں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ، پھر وہی بتلائے گا کہ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے ؟
دین میں تفرقہ ڈالنے والوں سے بیزاری کا اعلان اور ان سب سے الگ تھلگ رہنے کا حکم : 252: وہ کہتا ہے کہ خدا کے ٹھہرائے ہوئے دین کی حقیقت تو یہ تھی کہ وہ نوع انسانی پر خدا پرستی اور نیک عمل کی راہ کھولتا تھا یعنی اللہ کے اس قانون کا اعلان کرتا تھا کہ دنیا کہ ہرچیز کی طرح انسانی افکارو اعمال کے بھی خواص و نتائج ہیں۔ اچھے فکر و عمل کا بدلہ اچھا ہے ، برے فکر وعمل کا بدلہ برا ہے لیکن لوگوں نے یہ حقیقت فراموش کردی اور دین و مذہب کو نسلوں ، قوموں ، ملکوں اور طرح طرح کی رسموں اور رواجوں کا ایک جتھا بنا دیا نتیجہ یہ نکلا کہ اب انسان کی نجات وسعادت کی راہ یہ نہیں سمجھی جاتی کہ کسی کا اعتقاد اور عمل کیا ہے ؟ بلکہ سارا دارومدار اس پر آکر ٹھہر گیا ہے کہ کون کس جتھے اور گروہ بندی میں داخل ہے ؟ اگر ایک آدمی کسی خاص گروہ بندی میں داخل ہے تو یقین کیا جاتا ہے کہ وہ نجات یافتہ ہے اور دین کی سچائی اسے مل گئی اگر داخل نہیں ہے یقین کیا جاتا ہے کہ نجات کا دروازہ اس پر بند ہوگیا اور دین کی سچائی میں اس کا کوئی حصہ نہیں گویا دین کی سچائی ، آخرت کی نجات اور حق و باطل کا معیار تمام گروہ بندی اور گروہ پرستی ہوگئی اعتقاد وعمل کوئی چیز نہیں ہے۔ پھر باوجودیکہ تمام مذاہب کا اصل مقصود اصل ایک ہی ہے اور سب ایک ہی پروردگار عالم کی پرستش کرنے کے مدعی ہیں لیکن ہر گروہ یقین کرتا ہے کہ دین صرف اسی کے حصے میں آیا ہے باقی تمام نوع انسانی اس سے محروم ہے۔ چناچہ ہر مذہب کا پیرو دوسرے مذہب کے خلاف نفرت وتعصب کی تعلیم دیتا ہے اور دنیا میں خدا پرستی اور دین داری کی راہ سر تا سر بغض وعداوت ، نفرت وتوحش اور قتل و خونریزی کی راہ بن گئی ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کریم نے جن مہمات پر زور دیا ہے ان میں تین باتیں سب سے زیادہ نمایاں ہیں : 1 ۔ انسان کی نجات وسعات کا دارومدار اعتقاد عمل پر ہے نہ کہ کسی خاص گروہ بندی پر۔ 2 ۔ نوع انسانی کے لئے دین الٰہی ایک ہی ہے اور یکساں طور پر سب کو اس کی تعلیم دی گئی ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ پوری نوع انسانی کے رسول ہیں اور یہ جو پیروان مذاہب نے دین کی وحدت اور عالمگیر حقیقت ضائع کر کے بہت سے متخالف اور متخاصم جتھے بنا لئے ہیں یہ صریح گمراہی ہے۔ 3 ۔ اصل دین توحید ہے یعنی ایک پروردگار عالم کی براہ راست پر ستش کرنا اور تمام بانیان مذاہب نے اس کی تعلیم دی ہے اور خصوصاً نبی اعظم وآخر ﷺ کی تعلیم دنیا کے سارے انسانوں کے لئے یہی ہے اس کے خلاف جس قدر عقائد و اعمال اختیار کر لئے گئے ہیں وہ سب کے سب اصلیت سے انحراف کا نتیجہ ہیں اور آپ کے لئے ہدایت یہ ہے کہ ان تمام گروہ بندیوں سے بیزاری کا اعلان کردیں اور ان میں سے کسی گروہ بندی کا ساتھ نہ دیں۔ لست منھم فی شیء یعنی تم کو ان سے کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہئے۔ ان کا معاملہ خدا کے حوالے ہے جیسے کچھ ان کے اعمال رہے ہیں ان کا نتیجہ اللہ انہیں بتلا دے گا۔ اس کی تفصیل عروۃ الوثقیٰ جلد اول تفسیر سورة البقرہ کی آیت 59 ، آیت 81 ، آیت 106 ، آیت 113 ، آیت 127 ، آیت 129 میں اور اسی طرح عروۃ الوثقیٰ جلد دوم سورة آل عمران کی آیت 70 ، آیت 74 ، آیت 78 اور سورة النساء کی آیت 12 ، 149 میں ملاحظہ کریں۔
Top