Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 33
قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَیَحْزُنُكَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ
قَدْ نَعْلَمُ : بیشک ہم جانتے ہیں اِنَّهٗ : کہ وہ لَيَحْزُنُكَ : آپ کو ضرور رنجیدہ کرتی ہے الَّذِيْ : وہ جو يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں فَاِنَّهُمْ : سو وہ یقینا لَا يُكَذِّبُوْنَكَ : نہیں جھٹلاتے آپ کو وَلٰكِنَّ : اور لیکن (بلکہ) الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگ بِاٰيٰتِ : آیتوں کو اللّٰهِ : اللہ يَجْحَدُوْنَ : انکار کرتے ہیں
ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ جیسی کچھ باتیں کرتے ہیں وہ تمہارے لیے ملال خاطر کا موجب ہوتی ہیں یہ دراصل تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم جان بوجھ کر اللہ کی آیتوں کو جھٹلا رہے ہیں
جن لوگوں کی باتیں آپ کے لیے ملال خاطر ہیں وہ ہمارے علم میں ہیں : 50: دنیا کی پرانی گمراہیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی انسان کی بات سنے بغیر اس کے متعلق ایک خیال قائم کرلینا کہ وہ ایسا ویسا ہے ۔ اس خیال کا مدار کیا ہے ؟ صرف اور صرف لوگوں کی باتیں کہ فلاں نے اسکو ” نیک “ کہا ہے یا فلاں نے اس کو ” برا “ کہا ہے اور یہ گمراہی آج اتنی ہی عام ہے جتنی کہ اس وقت تھی۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ہماری اکثریت تو سنی مسلمان ہے اور وہ سنت کا مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے یہی سمجھتے ہیں کہ جس بات کو ہم نے اپنے مذہبی پیشواؤں سے سن لیا بس وہ ہمارے لئے حرف آخر ہے کہ ہماری فکر کے بہت بڑے عالم ، مفتی اور پیشوا مانے گئے ہیں اور یہی وہ بات ہے جس کو نبی اعظم و آخر ﷺ کی زبان اقدس سے شرک قرار دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ کے متعلق روسائے مکہ نے یہ بات مشہور کردی کہ محمد ﷺ کو جنون ہوگیا۔ وہ ساحر ہے۔ اس پر کسی نے جادو کردیا ہے۔ وہ مجنون ہے ۔ اس کو ہمارے بزرگوں میں سے کسی کی مار لگ گئی ہے۔ اس کے قریب نہ جانا اس پر جنون کا سایہ ہے ۔ یہ اور اس کی بیشمار متضاد باتیں آپ کے متعلق بیان کردی گئیں جس کا اثر یہ ہوا کہ تیرہ سال تک مکہ میں رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا گیا کلام کسی کو سننے ہی نہ دیا گیا ۔ ان باتوں سے دل تنگ پڑنا ایک فطری امر ہے۔ اللہ کریم کی طرف سے آپ ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اے ہمارے رسول ! ﷺ ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ جیسی کچھ باتیں کرتے ہیں اور وہ جس طرح تمہارے لئے ملال خاطر ہوتے ہیں۔ “ قرآن کریم یہ مضمون بار بار دہرایا گیا جیسے سورة الحجر کی آیت 6 (الشعراء : 27) (الصفت : 26) (الدخان : 14) (الذاریات : 39 ، 52) (الطور : 29) (القمر : 9) (القلم : 51) (التکویر : 22) وغیرہ میں۔ یہ آپ ﷺ کو نہیں جھٹلاتے یہ ظالم اللہ کی آیتوں سے انکاری ہیں : 51: اس فقرہ نے نبی اعظم و آخر ﷺ کے سارے غم غلط کردیئے جب اس احکم الحاکمین کی طرف سے یہ اعلان جاری ہوگیا کہ ’۔ اے رسول ! ﷺ یہ دراصل تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم جان بوجھ کر اللہ کی آیتوں کو جھٹلا رہے ہیں۔ “ کیا ہی تسلی ہے جو اللہ نے آپ ﷺ کو دی ہے اور کیا ہی حقیقت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کھول کر رکھ دیا اور دو ہی لفظوں میں آپ ﷺ کی گذشتہ ساری زندگی کی وضاحت فرما دی۔ آپ ﷺ تو وہی ہیں میرے رسول ! ﷺ جس کو یہ لوگ ” الصادق “ اور ” الامین “ کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے اور برسوں انہوں نے آپ نے آپ ﷺ کو صادق اور امین جانا اور بیان کیا۔ پھر کیا ہوا کہ آپ ﷺ کو انہوں نے یہ کچھ کہنا شروع کردیا جس سے آپ ﷺ کو بھی ملال آنا شروع ہوا۔ آخر وہ شے ہے جس نے ان کی وہ حالت تبدیل کردی ؟ فرمایا وہ ہماری آیات کی بارش ہی تو ہے۔ پھر انہوں نے آپ کو جھٹلانا ہوتا تو اس وقت جھٹلاتے ۔ جب آپ محمد بن عبد اللہ تھے لنکم ان کا جھٹلانا اس وقت ہوا جب آپ محمد رسول اللہ ہوگئے اس لئے انہوں نے آپ (علیہ السلام) کو نہیں جھٹلایا بلکہ اس کلام کو جھٹلایا جو ہم نے آپ پر نازل کیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ کفار قریش کے دو سردار خنس بن شریق اور عمرو بن ہشام جس کو اسلام نے ابو جہل کے نام سے معروف کرایا۔ اخنس نے عمرو سے پوچھا کہ اے ابو الحکم یہ تنہائی کا موقع ہے میرے اور تمہارے کلام کو کوئی تیسرا نہیں سن رہا ہے مجھے محمد بن عبد اللہ ﷺ کے متعلق اپنا خیال صحیح بتلاؤ کہ ان کو سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا ؟ عمرو بن ہشام نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ بلاشبہ محمد ﷺ سچے ہیں انہوں نے عمر بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا لیکن بات یہ ہے کہ قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو قصی میں ساری خوبیاں اور کمالات جمع ہوجائیں اور باقی قریش خالی رہ جائیں اس کو ہم برداشت نہیں کرسکتے۔ جھنڈا بنی قصی کے ہاتھ میں ہے۔ حرم میں حجاج کو پانی پلانے کی اہم خدمت ان کے ہاتھ میں ہے ۔ بیت اللہ کی حفاظت و نگرانی اور اس کی کنجی ان کے ہاتھ میں ہے اب اگر نبوت بھی ہم انہی کے اندر تسلیم کرلیں تو باقی قریش کے پاس کیا رہ جائے گا۔ (بیضاوی) اور ایک روایت میں ہے کہ عمرو بن ہشام نے خود ایک دفعہ نبی اعظم و آخر ﷺ کو کہا کہ ہمیں آپ ﷺ پر جھوٹ کا کوئی گمان نہیں اور نہ ہم آپ ﷺ کی تکذیب کرتے ہیں ، ہاں ! ہم اس کتاب یا دین کی تکذیب کرتے ہیں جس کو آپ ﷺ لائے ہیں۔ (ناجیہ بن کعب) کتاب اور دین کو جھٹلانا بھی کسی دلیل کے تحت نہیں بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ اس سے ان کے باپ دادوں کی تکذیب لازم آتی تھی اور باپ دادا کو جھٹلانا اس وقت ان کے بس میں نہ تھا جس طرح آج کل بھی ہماری اکثریت کے بس میں یہ بات نہیں ہے اور عملی جھٹلانا زبانی جھٹلانے سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے جیسے عملی تصدیق زبانی تصدیق سے زیادہ مشکل ہوتی ہے۔
Top