Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 42
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ اَرْسَلْنَآ : تحقیق ہم نے بھیجے (رسول) اِلٰٓى : طرف اُمَمٍ : امتیں مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے فَاَخَذْنٰهُمْ : پس ہم نے انہیں پکڑا بِالْبَاْسَآءِ : سختی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَضَرَّعُوْنَ : تاکہ وہ عاجزی کریں
اور یہ واقعہ ہے کہ جو امتیں تم سے پہلے گزر چکی ہیں ہم نے ان کی طرف رسول بھیجے اور انہیں جن کی طرف رسول بھیجے گئے سختی اور محنت میں گرفتار کیا کہ عجب نہیں کہ وہ عجز و نیاز کریں
منہ زوروں کا علاج ؟ ان کے زور کو توڑ دینے کے سوا کچھ نہیں : 64: نبی اعظم و آخر ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ اے ہمارے رسول ! جس طرح آپ ﷺ اس دنیا میں پہلے رسول نہیں بالکل اسی طرح آپ ﷺ کی امت بھی پہلی امت نہیں۔ آپ ﷺ سے پہلے لاکھوں رسول گزر چکے اور لاکھوں امتوں کو ہم نے ٹھکانے لگایا۔ آپ ﷺ کی امت کے منہ زوروں سے وہ زیادہ منہ زور اور ہیکڑ تھے اور آپ ﷺ سے عذاب کا مطالبہ کرنے والوں سے ان کا اپنے رسولوں سے زیادہ زور دار مطالبہ تھا ہم نے ان کے مطالبہ کے پیش نظر دو طرح سے انکا امتحان لیا۔ پہلے کچھ سختی اور تکیف ان پر ڈال کر دیکھا کہ یہ کیا کرتے ہیں ؟ کیا یہ اس تکلیف اور مصیبت سے گھبرا کر بھی معبود حقیقی کی طرف رجوع کرتے ہیں یا نہیں ؟ قرآن کریم کی تعلیم میں دنیا کے عذاب کو ” عذاب ادنیٰ “ سے موسوم کیا گیا ہے اور عذاب آخرت کو ” عذاب اکبر “ سے اور زیر نظر آیت میں ” بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ “ کے الفاظ سے ” عذاب ادنیٰ “ ہی کی پکڑ مراد لی گئی ہے اور یہی وہ پہلا امتحان ہے۔ ” عذاب ادنیٰ “ جس سے مراد وہ تکلیفیں ہیں جو اس دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں مثلاً افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں ، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت ، المناک حادثات ، نقصانات ، ناکامیاں اور شرمندگیاں وغیرہ اور اجتماعی زندگی میں طوفان بادوباراں ، طغیانیاں اور سیلاب ، زلزلے ، وبائیں ، قحط ، فسادات اور لڑائیاں اور بہت سی آسمانی بلیات جو ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں ان آفات کے نازل کرنے کے مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ عذاب اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور اس طرز فکر کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ اس سے بالاتر کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ وقتاً فوقتاً افراد پر بھی اور قوموں اور ملکوں پر بھی ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے جو انسان کو اپنی بےبسی کا اور اپنے سے بالاتر ایک ہمہ گیر سلطنت کی کارفرمائی کا احساس دلاتی ہیں۔ یہ آفات ایک ایک شخص کو ، ایک ایک گروہ اور ایک ایک قوم کو یہ یاد دلاتی ہیں کہ اوپر تمہاری قسمتوں کو کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے۔ سب کچھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا ہے۔ اصل طاقت اس کارفرما اقتدار کے ہاتھ میں ہے۔ اسی کی طرف سے جب کوئی آفت تمہارے اوپر آئے تو نہ تمہاری کوئی تدبیر اسے رفع کرسکتی ہے نہ کسی جن یا روح یا دیوی اور دیوتا۔ یا نبی اور ولی سے مدد مانگ کر تم اس کو روک سکتے ہو۔ اس لحاظ سے یہ آفات محض آفات ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تنبیہات بھی ہیں جو انسان کو حقیقت سے آگاہ کرنے اور اس کی غلط فہمیاں رفع کرنے کے لئے بھیجی جاتی ہیں۔ ان سے سبق لے کر دنیا ہی میں آدمی اپنا عقیدہ اور عمل ٹھیک کرلے تو آخرت میں اللہ کا بڑا عذاب دیکھنے کی نوبت ہی کیوں آئے۔ یہ گویا پہلے امتحان کی کامیابی ہے۔
Top