Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 50
قُلْ لَّاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّیْ مَلَكٌ١ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ١ؕ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ١ؕ اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَقُوْلُ : نہیں کہتا میں لَكُمْ : تم سے عِنْدِيْ : میرے پاس خَزَآئِنُ : خزانے اللّٰهِ : اللہ وَلَآ : اور نہیں اَعْلَمُ : میں جانتا الْغَيْبَ : غیب وَلَآ اَقُوْلُ : اور نہیں کہتا میں لَكُمْ : تم سے اِنِّىْ : کہ میں مَلَكٌ : فرشتہ اِنْ اَتَّبِعُ : میں نہیں پیروی کرتا اِلَّا : مگر مَا يُوْحٰٓى : جو وحی کیا جاتا ہے اِلَيَّ : میری طرف قُلْ : آپ کہ دیں هَلْ : کیا يَسْتَوِي : برابر ہے الْاَعْمٰى : نابینا وَالْبَصِيْرُ : اور بینا اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ : سو کیا تم غور نیں کرتے
تم کہو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے غیبی خزانے ہیں نہ یہ کہتا ہوں کہ غیب کا جاننے والا ہوں ، نہ میرا یہ کہنا ہے کہ میں فرشتہ ہوں ، میری حیثیت تو فقط یہ ہے کہ اس بات پر چلتا ہوں جس کی اللہ نے مجھ پر وحی کردی ہے ، ان سے پوچھو کیا وہ جو اندھا ہے اور جو بینا ہے دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ کیا تم غور وفکر نہیں کرتے
پیغمبر اسلام ! ان سے پوچھیں کہ میں نے کب تم سے غیب کے خزانے رکھنے کا کہا تھا ؟ 76: غیب کیا ہے ؟ ” غیب “ سے مراد وہ حقیقتیں ہیں جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہیں اور کبھی براہ راست انسان کے تجربہ و مشاہدہ میں نہیں آتیں۔ مثلاً ذات الٰہ۔ مخصوص صفات خداوندی ، ملا ئ کہ ، نبوت ، وحی ، جنت اور دوزخ وغیرہ۔ رسول کیا ہے ؟ یہی باتیں جو انسان براہ راست انسان کے تجربہ ومشاہدہ میں نہیں آسکتیں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ جس شخص کو بذریعہ وحی بتا دیتا تھا وہ رسول ہوتا تھا اور ” رسول ‘ ‘ بھی چونکہ بغیر اللہ کے بتلائے نہیں جان سکتا تھا اور جو چیز کسی کے بتلانے سے معلوم ہوجائے اس کو ” غیب “ نہیں کہتے بلکہ ” علم “ کہتے ہیں۔ پھر وہ ” علم “ جو اللہ تعالیٰ نے براہ راست رسول کو سکھایا ” رسول “ نے اس کو لوگوں تک پہنچایا اور من و عن پہنچایا۔ لوگوں کو یہ ” علم “ حاصل ہوگیا لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ” غیب “ حاصل ہوگیا۔ اس جگہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی زبان اقدس سے اس بات میں آخری اور فیصلہ کن اعلان کر ادیا کہ مجھ سے بحث کرنی ہے تو اسی چیز پر کرو جو میں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں اور جس کا میں داعی ہوں۔ ان چیزوں پر کیوں جھگڑتے ہو جن کا میں نے سرے سے دعویٰ ہی نہیں کیا ؟ تمہارا یہ مطالبہ کہ ” اس کے پاس خزانے نہیں ہیں۔ “ تو میں نے کب کہا ہے کہ میرے پاس خزانے ہیں ؟ اگر میں یہ نہیں بتا سکتا کہ تم پر کب عذاب آئے گا اور کون اس کی لپیٹ میں آئے گا اور کون نہیں ؟ یا یہ کہ قیامت کب آئے گی تو میں نے کب دعویٰ کیا ہے کہ میں غیب جانتا ہوں ؟ اگر میں فرشتہ نہیں ہوں تو میری زبان سے کب نکلا کہ میں فرشتہ ہو ؟ جس چیز کو ” ایۃ “ یا ” ایت “ کہا جاتا ہے اسی چیز کو لوگ ” معجزہ “ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ ” رسول “ بذاتہ انہیں آیات میں سے ایک ” آیات بینہ “ ہوتا تھا نہیں بلکہ آیات بینات “ کے ایک مجموعہ کا نام ” رسول “ تھا۔ چونکہ نبی اعظم و آخر ﷺ بھی اللہ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں اس لئے آپ ﷺ کی ذات اقدس کے اندر ہزاروں معجزات ہیں اور ان معجزات کا صدور اس وقت سے ہوتا چلا آرہا تھا جب ابھی آپ ﷺ کے علم میں ” رسول “ ہونا بھی نہ آیا تھا۔ آپ ﷺ بےباپ اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ آپ ﷺ لکھنے پڑھنے سے بالکل الگ ایک امی محض ہو کر رہے۔ آپ ﷺ ایسی سرزمین میں پیدا ہوئے جس کے اندر بلکہ اس کے آس پاس میں بھی کوئی عالم تھا نہ علمی مرکز۔ آپ ﷺ نے چالیس سال تک اسی عالم میں تمام لوگوں کے سامنے زندگی گزاری۔ آپ ﷺ کا بچین اور جوانی ان لوگوں کے سا منے گزرے۔ دنیا کے اس جاہلی اور ناخواندہ قوم میں رہ کر ان ساری اخلاقی کمزوریوں سے پاک و صاف رہنا اور پورے ماحول کی آلودگی سے ذرہ بھر بھی آلودہ نہ ہونا کتنے معجزات سے بڑا معجزہ تھا جو سب نے اپنی آنکھوں سے اچھی طرح دیکھا تھا۔ چالیس سال کے بعد دفعتہ آپ ﷺ کی زبان مبارک سے ایسا محیر العقول اور حکیمانہ کلام جاری ہونا جس کی وضاحت و بلاغت نے تمام بلغاء دنیا کو چیلنج دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کے مونہوں پر مہر لگادی ، جس کے حکمت پرور معانی اور قیامت تک ضروریات انسانی کی رعایت کے ساتھ انسان کا مل کی زندگی ایک ایسا نظام عمل جس کو انسانی عقل و دماغ ہرگز ہرگز مرتب نہیں کرسکتا تھا نہ صرف نظری اور فکری حیثیت سے جمع کر کے پیش کیا بلکہ عملی طور پر بھی دنیا میں نہایت کامیابی کے ساتھ رائج کر کے دکھلادیا۔ یہ کتنا بڑا معجزہ تھا جو ان کی آنکھوں کے سامنے طے پاتا رہا اور ایک مدت کے بعد جا کر اسکی تکمیل ہوئی۔ وہ انسان جو اپنی انسانیت کو بھلا کر بیل ، بکری اور گھوڑے ، گدھے بن کر رہ گئے تھے جن کی عقلیں مسخ ہو کر رہ گئی تھیں جن کی زندگی کا مقصد صرف کھانے پینے ، سونے جاگنے اور جنسی اختلاط قرار پا چکا تھا۔ ان کو صحیح انسانیت کا سبق پڑھایا اور اس کا رخ صحیح انسانیت کی طرف پھیر دیا معاشرہ کے کتنے اندھوں کو آنکھیں ، کتنے بہروں کو کان اور کتنے کوڑھیوں کو چنگا اور کتنے مردوں کو زندہ کر دکھایا۔ بلاشبہ یہ سارا کام اللہ تعالیٰ کے اذن ہی سے ہوا۔ یہ سارا کچھ دیکھنے کے بعد جو لوگ پھر ” نشانی “ طلب کرتے رہے وہ کس ذہنیت کے لوگ تھے۔ وہ بالکل وہی تھے جو ابھی تک اندھے کے اندھے اور بہرے کے بہرے اور کوڑھی کے کوڑھی ہی تھے۔ جن کے دل مردہ تھے اور ابھی تک وہ اصل زندگی سے روشناس نہ ہو سکے تھے اور اسوقت بھی اس قسم کے لوگ ان بحثوں میں الجھے نظر آتے ہیں۔ وہ ان بحثوں میں الجھنے کی کوشش کرتے تھے جن کے حروف اججاد سے بھی وہ واقفیت نہیں رکھتے تھے ایسا کیوں تھا ؟ اس لئے کہ ان کے نزدیک زندگی فقط یہی دینوی زندگی تھی۔ ان کی ساری کدوکاوش اور دوڑ دھوپ کا مدعا دنیوی دولت ، عزت اور وقار کا حصول تھا وہ اس ادھیڑ بن میں اپنے دن گزارتے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت مند کیسے بن جائیں۔ ان کی راتیں اسی پیچ و تاب کی نذر ہو تیں کہ وہ کسی طرح اپنے حریف کی عزت کو خاک میں ملا کر اپنے جاہ و جلال کا پرچم لہرائیں۔ علاوہ ازیں شرف انسانی کا کوئی تصور ان کے ذہن میں موجود تھا۔ وہ خود ان کے اردگر بسنے والے انسان جن سے ان کو عمر بھر کا واسطہ پڑا تھا کسی طرح بھی وحشی درندوں سے بہتر نہ تھے۔ بھلا وہ انسان جس کے ہاتھ تو غریبوں اور مسکینوں کو لوٹتے وقت نہ ڈریں ، اپنے قریبی رشہ داروں کو قتل کرتے وقت نہ کانپیں۔ جن کے کان زندہ درگور ہونے والی بچیوں کی جگر دوز آہ و فغان سن رہے ہوں اور ان کے دل ٹس سے مس نہ ہوں۔ رہزنی اور غارت گری جس کا پیشہ ہو اور جوا بازی اور شراب خوری جن کی تفریح طبع کا سامان ہو۔ بدکاری اور بدمعاشی جن کا روز کا مشغلہ ہو وہ کوئی شریف چیز نہیں ہو سکتا۔ انسان کے متعلق وہ ایسا تصور قائم کرنے میں معذور بھی تھے کیونکہ انسان نام کا جو جانور انہیں ادھر ادھر دکھائی دے رہا تھا وہ انہیں لغویات اور خرافات کا مجسمہ تھا اس لئے ان کو یہ بات سمجھانا اتنا آسان نہ تھا کہ انسان بھی منصب رسالت پر فائز ہو سکتا ہے۔ یہ ان کی ذہنیت تھی اور اس سے بلند تر فضا میں پرواز کرنے کی ان کے مرغ فکر میں ہمیت نہ تھی۔ جب رحمۃ للعالمین ﷺ تشریف فرما ہوئے اور دعوت اسلام کا آغاز کیا تو یہ لوگ نادان بچوں کی طرح اپنے ایمان کے لئے ایسی شرطیں لگانے لگے جس سے ان کی مالی حالت بہتر ہوجائے اس لئے وہ کہا کرتے تھے کہ : (ا) یہ ہمارے تپتے ہوئے صحرا گلشن گلزار بنا دیجئے۔ ان میں ندیاں پہنے لگیں اور چشمے ابلنے لگیں اور سر سبز و شاداب کھیت لہلہانے لگیں تو ہم جانیں کہ آپ ﷺ سچے نبی ہیں۔ آپ ﷺ پر ایمان لانے سے ہمیں فائدہ ہو اور اگر ہماری معاشی بدحالی جوں کی توں ہی رہے تو پھر آپ ﷺ کو نبی ماننے سے ہمیں کیا فائدہ ؟ (ب) اور اگر یہ نہیں کرتے تو اتنا ضرور کیجئے کہ ہمیں بتا دیا کہ اس سال فلاں جنس کا بھاؤ چڑھ جائے گا تاکہ ہم اس کا ذخیرہ کرلیا کریں اور جب نرخ تیز ہوجائے تو اس کو بیچ کر نفع کمائیں یا ہماری چوری ہوجائے تو چور کا سراغ بتائیں۔ لیکن یہ چیزیں بھی آپ ﷺ نہیں کرتے تو پھر ہم خواہ مخواہ اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر کیوں اپنے آپ کو بدنام اور بےآرام کریں۔ (ج) جب وہ دیکھتے کہ یہ کھاتے پیتے بھی ہیں ، کاروبار بھی کرتے ہیں ، بال بچے دار بھی ہیں تو وہ کہتے یہ انسان ہیں اور انسان نبی کیسے ہو سکتا ہے ؟ بلاشبہ وہ تو کفار تھے اور ان کی ذہنیتیں مسخ تھیں اس لئے ان کی سمجھ میں یہ اور اس طرح کی دوسری باتیں نہ آنا بعید بھی نہیں لیکن آج جس طبقہ کے لوگوں کی سمجھ میں یہ باتیں نہ آئیں ان کو کیا کہئے گا ؟ کفار کی اس بگڑی ہوئی اور پست ذہنیت کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم ﷺ کی زبان پاک سے یہ اعلان کرایا کہ ” میں اس بات کا مدعی بن کر نہیں آیا کہ میں تمہارے ان رتیلے ٹیلوں کو ہموار کر کے رشک ارم بنا دوں گا۔ خشک زمینوں میں دریا بہا دوں گا اور ہر چٹان سے چشمے ابلنے لگیں گے۔ میں تمہاری مادی خواہشات کی تکمیل کے لئے نہیں بھیجا گیا۔ میں تو تمہیں اللہ سے ملانے آیا ہوں ، تمہارے ویران دلوں کو بسانے آیا ہوں۔ میں تو تمہارے گلستان حیات میں نیکی ، تقویٰ پرہیزگاری ، پاکیزگی اور خوش اخلاقی کے سدا بہار پھول کھلانے آیا ہوں۔ مجھے اس لئے تو مبعوث نہیں کیا گیا کہ میں تمہیں چنے ، جوار ، جو ، کھجور اور انگور کے بھاؤ بتاؤں بلکہ مجھے تو اعمال حسنہ کی جنس سے تمہیں آشنا کرنے کیلئے بھیجا گیا ہے۔ جن کی قدر و قیمت بازار محشر میں اتنی زیادہ ہوگی جس کا تم اب تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہ افکار کی لطافت ، ارادوں کی پختگی اور حوصلوں کی بلندی ، یہ اعمال کا حسن ، کردار کی رعنائی اور اخلاق کی پاکیزگی ، یہ عملی کمالات اور دوسرے تمام معجزات جن کا تم مجھ میں مشاہدہ کر رہے ہو ان سب کے باوجود میں انسان ہوں ، فرشتہ نہیں۔ فرشتہ تو ” انسان کامل “ کی گرد راہ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ تمہارے ذہنوں میں انسان کا جو گھٹیا تصور ہے وہ ” کامل انسان “ کا نہیں بلکہ بھٹکے ہوئے انسان کا تصور ہے جو شکل و صورت سے تو انسان نظر آتا ہے لیکن انسانی اوصاف سے بالکل عاری ہے وہ انسان جو نفس اور شیطان کے دام فریب میں گرفتار ہو کر اور مدت دراز تک اس کا گرفتار رہ کر اپنی مسند شرف و عزت سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس لئے تم انسان کو اتنا حقیر نہ جانو۔ اپنی قدر پہچا نو اور اپنے شرف خدا داد کا احترام کرتے ہوئے شیطان کے جال سے رستگاری حاصل کرنے کے لئے کوشش کرو۔ پھر زیر نظر آیت سے اس شبہ کا ازالہ بھی کردیا جس میں اکثر ضعیف العقل لوگ مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ذرا کسی میں کمال دیکھا تو جھٹ اس کے خدا ہونے کا یقین کرلیا۔ اس مجموعہ معجزات ﷺ سے اللہ تعالیٰ نے اعلان کروادیا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سارے خزانے میں میرے قبضہ میں ہیں کہ میں جس طرح چاہوں ان میں تصرف کردں یا مجھے غیب کا علم ہے اور بغیر اللہ کے بتلائے اور سکھائے میں ” غیب “ کو جانتا ہوں۔ میرا یہ دعویٰ نہیں۔ میرا جو دعویٰ ہے وہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ” جو کچھ میری طرف وحی کیا جاتا ہے میں اسکی پیروی کرتا ہوں قول اور فعل میں علم اور عمل میں۔ میں نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا تم خدا کے کام میرے ذمہ مت ڈالو۔ ” اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا اور زمین و آسمان کے سارے خزانے بھی اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اس نے کسی انسان کے ہاتھ میں یہ نہیں دیئے۔ “ زیر نظر آیت کے اس حصہ میں ایک اور اہم اور بنیادی چیز کی طرف بھی اشارہ کردیا کہ اسلام کی اشاعت کا انحصار لالچ اور شعبدہ بازی پر نہیں بلکہ معرفت حق اور قبول حق پر ہے۔ اس لئے کوئی شخص اس لالچ میں ایمان نہ لائے کہ اسے فلاں جاگیر مل جائے گی ، زمین میں چھپا ہوا کوئی خزانہ اس کے ہاتھ لگ جائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں فقط وہی ایمان مقبول ہوگا جو حق کو حق سمجھ کر صرف اس لئے کہ وہ حق ہے قبول کیا جائے تو اس کا نام ” ایمان “ ہے۔ وحی الٰہی کا اتباع میرا منصب ہے اور یہی میری ذمہ داری ہے کہ تم کو اتباع کر کے دکھاؤں : 77: ” میری حیثیت تو فقط یہ ہے کہ اس بات پر چلتا ہوں جس کی اللہ نے مجھ پر وحی کردی ہے۔ “ لیکن نادان لوگوں کے ذہن میں ہمیشہ سے یہ احمقانہ تصور رہا ہے اور اب بھی ہے کہ جو شخص خدا رسیدہ ہو اسے انسانیت سے ماوراء ہوناچاہئے۔ اس سے عجائب وغرائب صادر ہونا چاہئیں۔ وہ ایک اشارہ کرے تو پہاڑ سونے کا بن جائے۔ وہ حکم دے اور زمین سے خزانے ابلنے لگیں ، اس پر لوگوں کے اگلے پچھلے سب حالات روشن ہوں۔ وہ بتادے کہ گم شدہ چیز کہاں رکھی ہے۔ مریض بچ جائے گا یا مر جائے گا۔ حاملہ کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ۔ پھر اس کو انسان سے بھی کوئی ماوراء شے ہونا چاہئے۔ بھلا وہ بھی کوئی خدا رسیدہ ہوا جسے بھوک اور پیاس لگے ، جس کو نیند آئے ، جو بیوی بچے رکھتا ہو ، جو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے خریدو فروخت کرتا پھرے۔ جسے کبھی قرض لینے کی ضرورت پیش آئے اور کبھی وہ مفلس و تنگ دستی میں مبتلا ہو کر پریشان حال رہے۔۔ اس قسم کے تصورات نبی اعظم و آخر ﷺ کے معاصرین کی ذہنیت پر مسلط تھے اور انہیں تصورات نے آج شرک کی آبیاری کی ہے اور کر رہے ہیں اور خود غرض لوگوں نے انہیں تصورات کو پروان چڑھانے کی ہمیشہ کوشش کی ہے تاکہ ان کو اپنی دکانداری چلانے کے لئے اس دولت لازوال سے بقدران کی ہمت کے حصہ ملتا رہے۔ فرمایا کہ میرا خود نبی بننے کو جی نہیں چاہا تھا کہ میں اپنی خواہش پوری کرنے کیلئے دعوائے نبوت کروں بلکہ اللہ نے جب وحی کے ذریعہ سے مجھے اس منصب پر مامور کیا تب میں تمہارے درمیان تبلیغ رسالت کیلئے اٹھا اور میں نے اس بات کا اعلان کیا کہ ” میں اللہ کا رسول ہوں۔ “ اس طرح اسلام کی یہ دعوت توحید کی یہ تعلیم آخرت اور حشر ونشر اور جزائے اعمال کی یہ خبریں۔ کائنات و انسان کے متعلق یہ حقائق اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے کے لئے یہ اصول جو میں پیش کر رہا ہوں یہ سب کچھ بھی میرا اپنا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر وحی کیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ میں ” اپنی خواہش سے نہیں بولتا یہ تو وہ وحی ہے جو مجھ پر نازل ہوئی ہے۔ “ اور میں اس کی اتباع کر کے تم کو ” نمونہ “ پیش کر رہا ہوں۔
Top