Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 68
وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖ١ؕ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَاِذَا : اور جب رَاَيْتَ : تو دیکھے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو کہ يَخُوْضُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِيْٓ : میں اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَاَعْرِضْ : تو کنارا کرلے عَنْهُمْ : ان سے حَتّٰي : یہانتک کہ يَخُوْضُوْا : وہ مشغول ہو فِيْ : میں حَدِيْثٍ : کوئی بات غَيْرِهٖ : اس کے علاوہ وَاِمَّا : اور اگر يُنْسِيَنَّكَ : بھلا دے تجھے الشَّيْطٰنُ : شیطان فَلَا تَقْعُدْ : تو نہ بیٹھ بَعْدَ : بعد الذِّكْرٰي : یاد آنا مَعَ : ساتھ (پاس) الْقَوْمِ : قوم (لوگ) الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں میں کا وشیں کرتے ہیں تو تم ان کے ساتھ بحث کرنے میں وقت ضائع نہ کرو اور ان سے کنارہ کش ہوجاؤ یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں غور و خوض کرنے لگیں اور اگر ایسا ہو کہ شیطان تمہیں بھلا دے تو چاہیے کہ یاد آنے کے بعد ایسے گروہ میں نہ بیٹھو جو ظلم کرنے والے ہیں
فضول بحثیں کرنے والوں کے ساتھ بحث ہیں الجھ کر اپنے قیمتی وقت کو ضائع نہ کرو : 107: ” یَخُوْضُوْنَ “ کی اصل خ و ص ہے اور خوض کے معنی کسی چیز میں گھس جانے کے ہیں۔ اس سے خوض فی الحدیث کا محاورہ بنا ہے جس کے معنی ہیں بات سے بات نکالنا ، بال کی کھال اتارنا ، نکتہ چینی اور کٹ حجتیاں کرنا ، نئے نئے شوشے چھوڑنا دور کی کوڑی لانا ، پانی میں مدھانی ڈالنا ، پانی بلونا ، ذہنی عیاشی کرنا وغیرہ وغیرہ۔ کچھ لوگوں کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے کہ وقت گزارنے کے لئے دین کی باتوں پر بحث شروع کردی اور پھر بات سے بات نکالتے کہاں کے کہاں پہنچ گئے۔ دل لگی کے لئے دوسرے شغلوں سے وقت نکال کر دین کو شغل بنا لیا۔ آیت کا خطاب عام ہے جس میں نبی اعظم وآخر ﷺ بھی داخل ہیں اور امت کے سارے افراد بھی اور آپ ﷺ کو خطاب بھی دوسرے عام مسلمانوں کو سمجھانے ہی کے لئے ہے ورنہ آپ ﷺ پوری زندگی خواہ وہ نبوت سے پہلے کی تھی یا بعد کی کبھی ایسی مجلسوں میں تشریف فرما نہیں ہوئے۔ آپ ﷺ سے کوئی ایسی بات سرزد نہ ہوئی جس کی وجہ سے یہ آیت نازل کی گئی بلکہ یہ آپ ﷺ کی امت کے لئے ایک خاص راہنمائی ہے اور خصوصاً ان لوگوں کے لئے جو مذہبی پیشوا کہلاتے ہیں کیونکہ ان کو اکثر ایسے لوگوں سے واسطہ پڑنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن افسوس سے کہناپڑتا ہے کہ علمائے امت کی اکثریت نے اس ہدایت سے کان بند ہی رکھے اور ایسے ایسے الجھاؤ پیدا گئے کہ مذہب اسلام کو چوں چوں کا مربہ بنا کر رکھ دیا۔ چونکہ یہ آیت پچھے سورة النساء میں گزر چکی ہے اس لئے اس کی تفسیر کے لئے عروۃ الوثقیٰ جلد دوم سورة النساء کی آیت 140 کے حاشیہ 226 اور 227 ملاحظہ کریں۔ ان سے کنارہ کش ہوجاؤ یہاں کہ وہ کسی دوسری بات میں مصروف ہوں : 108: آیت کے اس حصہ میں مجلس کے سارے آداب سکھا دیئے گئے اور دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کا معیار بھی مقرر کردیا گیا ” فَلَا تَقْعُدْ “ وہاں مت بیٹھو کے لفظی معنی مراد لے کر یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ وہاں کھڑے رہنے کی اجازت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسی مجلس سے کنارہ کش ہوجاؤ جس کو واک آوٹ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ یا قرآن کریم کی آیات کریمات یعنی تعلیمات اسلامی کا تمسخر اڑایا جارہا ہو تو تم تمسخر اڑانے والوں کے ساتھ مل کر مت بیٹھو اس لئے بےدینوں اور خصوصاً ان بےدینوں کے ساتھ جو ایک دین کے ماننے والے ہوں اور اس کے باوجود اس دین کا تمسخر بھی اڑائیں تو ان سے محبت و اختلاط تو کسی حال میں بھی جائز نہیں۔ غور کیجئے کہ اس وقت ہمارے ملک میں مغربی جمہوریت کو جب قانوناً تسلیم کرلیا گیا ہے تو اس سے زیادہ تمسخر اللہ ، اس کے رسول اور کتاب اللہ کے ساتھ اور کیا ہوگا کہ ایک ملک اسلامی بھی کہلائے اور قانون الٰہی کا تمسخر بھی اڑائے۔ دونوں باتیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ پھر ان تمسخر اڑانے والوں کے ساتھ مل کر اس مغربی جمہوریت کے مطابق ملک کے الیکشن میں حصہ لینا اور سارے داؤ ، فریب اور مکاریاں کرنا جو اس نظام میں جائز رکھی گئی ہیں ” علمائے حق “ کا کام ہو سکتا ہے ؟ جن لوگوں نے مذہبی پیشوا ہونے کے بڑے بڑے گون اور چوغے پہن رکھے ہیں اور وہ اس نظام میں باقاعدہ حصہ بھی لے رہے ہیں وہ اس آیت کریمہ کے مطابق کھلے مجرم ہیں۔ اللہ ، اس کے رسول اور کتاب اللہ کے ساتھ مذاق کرنے کے۔ ان لوگوں کو اپنے مطلب کے خلاف باتوں پر قومی ، صوبائی اسمبلیوں میں واک آوٹ کر جانا عذاب الٰہی سے نہیں بچا سکتا۔ ایک آدمی خبث وناپا کی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہو اور اس سے نکلنے کی کوشش بھی نہ کرے اور ساتھ ہی اس بات کا دعویدار بھی ہو کہ میں نے اپنے کپڑوں پر کوئی چھینٹ نہیں پڑنے دی تو وہ جتنا اس دعویٰ میں صادق ہوگا سب کو معلوم ہے۔ تقسیم ہند کے بعد اس ملک عزیز کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں دی گئی وہ سب کے سب الاماشاء اللہ انگریز کی پیوند کاری سے جہنم لینے والے لوگ تھے ان کے ہاتھوں میں زمام حکومت دینے کا طریقہ بھی ظاہر ہے کہ انگریزوں کا اختراع کردہ تھا اسوقت علمائے کرام نے اس کی کوشش بھی کی کہ اس طریقہ کی اصطلاح ہو اور اس کو کسی نہ کسی صورت میں بدل دیا جائے لیکن یہ سب کچھ سمجھنے کے باوجود وہ متحد نہ ہو سکے اور ان کے متحد نہ ہونے کی اصل وجہ ان کی مذہبی گروہ بندی تھی جو بذاتہ غیر اسلامی چیز تھی۔ انہوں نے ایک ہاتھ سے اسلام کو لانے کی کوشش کی لیکن دوسرا ہاتھ کفر سے نہ اٹھایا۔ اس کا جو فطری نتیجہ نکلنا چاہئے تھا وہی نکلا اور انہوں نے ناکامی کا منہ دیکھا۔ پھر جب انہوں نے دیکھا کہ انگریز کی پیوند کاری سے جہنم لینے والے دونوں ہاتھوں سے کھا رہے ہیں اور ہمارا ایک ہاتھ اسلام پر اور دوسرا کفر پر ہونے کے باعث کوئی بھی ہاتھ خالی نہیں تو اب ہاتھوں نے اس میں نجات سمجھی کہ کسی نہ کسی طریقہ سے پیوند کاری سے پیدا ہونے والوں کے ساتھ مل جائیں۔ یہ بات اس وقت پیوند کاری ہونے والوں کو بھی معلوم ہوئی کہ اس طرح نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ تعجب یہ ہے کہ اس وقت جو لوگ مغربی جمہوریت کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور اپنے آپ کو ” جماعت اسلامی “ کے امیر سمجھتے تھے وہی اس میدان میں سب سے پہلے کو دنے والے ہوئے۔ پھر چل سو چل والا معاملہ شروع ہوگیا اور آج جس دور سے ہم گزر رہے ہیں وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ لیکن کیا ہمارے علمائے کرام کی ان قلابازیوں سے اللہ کی کتاب بدل جائے گی ’ اللہ کا یہ قانون بدل جائے گا ؟ یقیناً نہیں وہ اپنی جگہ پر اٹل ہے۔ انشاء اللہ العزیز وہ وقت آئے گا کہ اس سیاست اور اس پیشوائیت کی جڑیں اکھاڑ کر رکھ دی جائیں گی اور اس ذات ” الٰ “ کے ایک ہی گا تھ سے دونوں کا صفایا ہوجائے گا اور اسکا حکم ” کن “ کب آئے گا ؟ یہ وہی جانتا ہے لیکن ہمارا ایمان اس بات پر پختہ ہے کہ جب اس کا حکم ” کن “ آئے گا بس ” فیکون “ ہوجائے گا۔ کوئی ہمارا مذاق اڑاتا ہے تو سو بار اڑائے اگر اس کو مذاق اڑانے کا حق ہے تو ہم کو بھی ” بات “ کہنے کا حق ہے۔ قرآن کریم کا حکم ایک بار پھر پڑھ لو فرمایا ” اور ان سے یعنی تمسخر اڑانے والوں سے کنارہ کش ہوجاؤ یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں غور و خوض کرنے لگیں۔ اگر شیطان تم کو بھلا دے تو یاد آنے کے بعد اس گروہ سے لاتعلقی کرلو : 109: فرمایا باتوں ہی باتوں میں ایسے مصروف ہوئے کہ یہ بات سمجھ ہی میں نہ آئی اور کسی شغل میں پڑ کر ان لوگوں سے صحبت و ہم نشین ہوگئے تو چونکہ یہ ایک انسانی کمزوری ہے اس لئے سہو ونسیان سے شریعت نے مواخذہ اٹھا دیا ہے لہٰذا یاد آنے کے بعد اب دیر نہ لگائے اور گذشت آنچہ گزشت کر کے ایسے نظام سے لاتعلقی کا اظہار کردو اور عملی حصہ لینا بھی ترک کردو کہ ایسے ظالموں سے الگ تھلگ ہونے ہی میں نجات ہے۔ آیت کے اس آخری حصہ نے یہ بات مزید صاف کردی کہ یہ حکم جو اس آیت میں دیا گیا یہ نبی اعظم و آخر ﷺ کے ذریعہ سے آپ ﷺ کی امت کے ہر فرد کے لئے ہے جن سے ایسی لغزش کے ہونے کا امکان تھا۔ آپ ﷺ کے لئے نہیں کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ سے ایسی کسی بھول کا امکان ہی نہ تھا اور نہ ہی آپ ﷺ سے کبھی کوئی ایسی لغزش ہوئی۔ نسیان سے بلاشبہ کوئی نبی بیی مستثنیٰ نہیں لیکن ” اتفاقی نسیان “ اور ” شیطانی نسیان “ کا فرق بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہئے کہ یہ دونوں ایک نہیں بلکہ ان میں بہت بڑا فرق موجود ہے جو کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جماعتی زندگی بلاشبہ اسلام میں ایک بہت بڑی ضرورت ہے ، اس لئے اس کو لازم و ضروری قرار دیا گیا ہے لیکن اس جماعتی زندگی کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے جو اس وقت ہم نے اپنا لی ہے ” کفر “ کے مقابلہ میں ” اسلام “ ایک جماعت ہے بالکل صحیح لیکن اسلام کے اندر اگر کوئی دوسری جماعت بنائے تو اسکی سزا ” قتل “ ہے اس طرح اس وقت کون کون اس کی زد میں آتا ہے کچھ نہ پوچھئے اور یاد رکھئے کہ ایسی جماعتوں سے الگ تھلک رہنا ہی نجات کا باعث ہے۔ قرآن کریم کا حکم ایک بار پھر سن لیں اور خود یاد رکھیں ” اگر ایسا ہو کہ شیطان تمہیں بھلا دے تو چاہئے کہ یاد آنے کے بعد ایسے گروہ میں نہ بیٹھو جو ظلم کرنے والے ہیں۔ “ ” ظلم کرنے والے ہیں “ مع القوم الظلمین اور لوگوں کے جمع ہونے سے جماعت بنتی ہے۔ ایسے ظالم کتنے ہی اکٹھے ہوجائیں ان سے الگ ہونا لازم و ضروری ہے اور ان کے ساتھ رہنا انہی میں سے شمار ہونے کے مترادف ہے خواہ وہ کتنا ہی صالح اور نیک انسان کیوں نہ ہو۔ آنے والی آیت اس کی مزید وضاحت فرما رہی ہے۔
Top