Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 76
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًا١ۚ قَالَ هٰذَا رَبِّیْ١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَنَّ : اندھیرا کرلیا عَلَيْهِ : اس پر الَّيْلُ : رات رَاٰ : اس نے دیکھا كَوْكَبًا : ایک ستارہ قَالَ : اس نے کہا هٰذَا : یہ رَبِّيْ : میرا رب فَلَمَّآ : پھر جب اَفَلَ : غائب ہوگیا قَالَ : اس نے کہا لَآ : نہیں اُحِبُّ : میں دوست رکھتا الْاٰفِلِيْنَ : غائب ہونے والے
پھر جب ایسا ہوا کہ اس پر رات کی اندھیری چھا گئی تو اس نے ایک ستارہ دیکھا اس نے کہا کیا یہ میرا پروردگار ہے ؟ لیکن جب وہ ڈوب گیا تو کہا ہاں ! میں انہیں پسند نہیں کرتا جو ڈوب جانے والے ہیں
ستارہ پرستوں کے ساتھ ابراہیم (علیہ السلام) کی نشیت جس میں وہ کوئی دلیل نہ دے سکے : 122: جیسا کہ پیچھے ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم شخصیت پرست تھی جس کے نتیجہ میں بت پرستی پیدا ہوتی ہے اور اس کے ساتھ وہ کو اکب پرستی بھی کرتی تھی اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ انسانوں کی موت وحیات ، ان کا رزق ، ان کا نفع و ضرر ، خشک سالی اور قحط سالی ، فتح وظفر اور شکست و ہزیمت غرض کہ تمام کارخانہ عالم کا نسظم و سنق کو کو اکب اور ان کی حرکات و سکنات کی تاثیر پر چل رہا ہے اور یہ تاثر ان کے ذاتی اوصاف میں سے ہے اور یہ ستارہ دوسرے ستاروں کا ستارہ ہے اور اس کی حرکت کے ساتھ دوسرے ستاروں کی حرکت باندھ دی گئی ہے اس لئے اس کی خوشنودی ضروری ہے جو اس کی پرستش کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے جس طرح ان کے سفلی معبودان باطل کی بےثباتی اور فنا کے منظر کو بھی ان کے سامنے واضح طور پر بیان کر دیاجائے۔ آپ نے سب سے پہلے ستارہ پرستوں کو مخاطب فرمایا اور یہ اس طرح ہوا کہ تاروں بھری رات تھی اور ان میں ایک ستارہ مثلاً زہرہ خوب روشن تھا آپ کا وعظ جاری تھا اور جس مقصد کے لئے آپ نے رات کا وقت وعظ کے لئے پسند کیا اس کا موقع خوب میسر آگیا تو سیدنا ابراہیم علیہ نے اس کو دیکھ کر لوگوں کو اسکی طرف مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ” کیا یہ میرا رب ہے ؟ “ استفہام انکاری کی صورت میں ان سے دریافت کیا اور اس طرح کے سوال کرنے میں جو لطف آتا ہے اور جو طریق تفہیم ظاہر ہوتا ہے وہ اس مجلس کے لوگ ہی سمجھ سکتے ہو جس میں اس طرح کا بیان ہو رہا ہو گویا انہی موقعوں کے لئے محاورہ بولا جاتا ہے کہ ” دیدہ کے بود شندجہ “ ستارہ اپنی پوری تمازت کے ساتھ رواں دواں ہے اور خدائی واعظ نے اسکی طرف توجہ دلائی ہے اور اس طرح توحید الٰہی کا وہ وعظ جاری ہے جو وعظ ایک اللہ کا نبی و رسول کائنات کی ایک ایک چیز کو توحید کی دلیل میں پیش کرتا جا رہا ہے اور ہرچیز سے یہ کہلوارہا ہے کہ یہ چیز تو پکار پکار کر توحید الٰہی کو بیان کر رہی ہے بشرطیکہ کوئی بینا آنکھ بھی رکھتا ہو جوا س کو دیکھ سکے۔ وعظ کرتے کرتے پھر اس ستارہ کی طرف مضمون کو پھیرتا ہے وہ ایساوقت ہے کہ ستارہ صاحب اپنی گردش کے پردہ میں لوگوں کی نظروں سے غائب ہوچکے ہیں۔ دلیل کو ستارہ کی طرف پھیرتے ہوئے قوم سے گویا ہوتے ہیں کہ لوگوں کیا یہ ستارہ بڑا مدد گار ہے ؟ ذرا غور سے دیکھو کہ وہ اب بھی کہیں نظر آتا ہے ؟ کہاں سے وہ نظر آئے اب تو وہ کل ہی اپنے وقت پر نظر آسکتا ہے اسی مجلس میں تو وہ دوبارہ چمک دمک نہیں دکھا سکتا۔ اب بڑے وثوق سے اللہ کا رسول اس طرح استشہاد فرماتا ہے کہ لوگو ! غور کرو ، جو خود ڈوب جانے والے ہوں اور اس ڈوبنے اور نظر آنے میں کسی دوسرے کے محتاج ہوں بھلا وہ بھی کبھی رب اور الٰہ کہلا سکتے ہیں۔ وہ تو خود محتاج ہے اور کسی با اختیار رو کے بندھن میں بندھا ہوا ہے اور وہی اس کو اپنے قائم کردہ نظام اور قانوں کے مطابق لاتا ہے اور اسی طرح اپنے قانون کے مطابق لاتا ہے اور اسی طرح اپنے ایندھن کے مطابق لے جاتا ہے۔ تم کتنے سادہ لوح اور کند ذہن ہو کہ اتنی عقل بھی نہیں رکھتے اور پھر تمہاری انگلی پکڑ کر حقیقت پر رکھی جاتی ہے لیکن تم ہو کہ ذرا ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
Top