Urwatul-Wusqaa - Al-Qalam : 42
یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّ یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَۙ
يَوْمَ يُكْشَفُ : جس دن کھول دیاجائے گا عَنْ سَاقٍ : پنڈلی سے وَّيُدْعَوْنَ : اور وہ بلائے جائیں گے اِلَى السُّجُوْدِ : طرف سجدوں کے فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : تو وہ استطاعت نہ رکھتے ہوں گے
جس دن ساق کھولی جائے گی اور لوگوں کو سجدہ کی طرف بلایا جائے گا پھر یہ لوگ (سجدہ) نہ کرسکیں گے
جس دن ساق کھولی جائے گی ، لوگوں کو سجدہ کی طرف بلایا جائے گا وہ سجدہ نہیں کرسکیں گے 42 ؎ (ساق) پنڈلی۔ علامہ مجد الدین فیروز آبادی رقم طراز ہیں کہ ” تخنہ اور گھٹنہ کے جو درمیان ہے وہ (ساق) ہے۔ سوق سقان اور اسوق جمع وائو کو ہمزہ اس لئے کہا گیا ہے کہ ضد کو برداشت کرسکے اور (یوم یکشف عن ساق) جس دن پنڈلی کھولی جائے کے معنی عن شدۃ کے ہیں یعنی جس روز سختی ظاہر ہوگی اور والتفت الساق بالساق اور پنڈلی پنڈلی پر لپٹ گئی۔ یعنی دنیا کی آخری شدت ، آخرت کی پہلی شدت سے لپٹ گئی جب معاملہ کی شدت اور اس کی ہولناکی کی خبر دینا مقصود ہوتا ہے تو (ساق) کا ذکر کرتے ہیں۔ جب کوئی سخت تکلیف اور مصیبت کا وقت آجاتا ہے تو اہل عرب یہ محاورہ استعمال کرتے ہیں اور اسی طرح جب گھسمان کی لڑائی شروع ہوجاتی ہے تو کہتے ہیں شمرت الحربعن ساقھا جنگ نے اپنی پنڈلی سے تہہ بند اوپر اٹھا لیا اور جب قحط سالی انتہا کو پہنچ جائے تو اس کا ذکر اس طرح کرتے ہیں کہ : سنۃ قد کشفت عن ساقھا یہ اس سال کی بات ہے جس نے پنڈلی ننگی کردی اور اس محاورہ کے مطابق آیت کے معنی ہوں گے وہ دن جس دن حالات بہت ہی تکلیف دہ اور ہولناک ہوجائیں گے اور ہر شخص جلال خداوندی کے سامنے لرزہ براندام ہوگا اور کپکپی طاری ہوگی اور چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہوں گی اور دل خوف سے دھک دھک کر رہے ہوں گے اور لوگوں کی آزمائش کے لئے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا جائے گا اور جونہی اللہ کے نیک بندے سجدے میں گریں گے تو ان کے دلوں کو طمانیت نصیب ہوگی اور کافر اور منافق سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن وہ سزا سجدہ نہیں کرسکیں گے اور اس رسوائی کے باعث ان کی آنکھیں جھک جائیں گی اور اس طرح ان کا کفر اور نفاق سب کے سامنے کھل جائے گا اور کسی سے کوئی بات پوشیدہ نہیں رہے گی۔ زیر نظر آیت میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ان کا بھانڈا کس طرح چورا ہے میں پھوٹ جائے گا۔
Top