Urwatul-Wusqaa - Al-Qalam : 47
اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَیْبُ فَهُمْ یَكْتُبُوْنَ
اَمْ : یا عِنْدَهُمُ : ان کے پاس الْغَيْبُ : کوئی غیب ہے فَهُمْ يَكْتُبُوْنَ : تو وہ لکھ رہے ہیں
یا ان کے پاس غیب کی خبر ہے کہ وہ اس کو لکھ لیتے ہیں
کیا ان کے پاس کوئی غیب کی خبر ہے کہ وہ اس کو لکھ لیتے ہیں 47 ؎ گزشتہ آیت کے مضمون کی مزید وضاحت کی جا رہی ہے کہ یہ لوگ کس کردار کے لوگ ہیں کہ جو بات ان کے منہ میں آتی ہے کہہ دیتے ہیں ذرا پر دا نہیں کرتے اور نہ ہی عقل و فکر سے سمجھ سوچ کر بات کرنے کی ان کو عادت ہے اور جو کچھ کرتے ہیں محض اس لئے کرتے ہیں کہ زبان ان کے پاس ہے اور جو کچھ یہ بک سکتے ہیں وقتی طور پر بک دیتے ہیں اور جب وقت نکل جاتا ہے تو ان کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہم نے کس سے کیا کہا ہے اور کیا نہیں۔ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ اس لئے کہ ان کو معلوم ہے کہ ہم کو کوئی پوچھ نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی کہہ سکتا ہے کہ تم نے یہ وعدہ کیا تھا جو ایفا نہیں کیا اور جس طرح یہ عام باتیں کرنے کے عادی ہیں اسی طرح اگر کوئی آخرت کی بات ان کے سامنے آتی ہے تو اس کے متعلق بھی بڑی بےاعتنائی سے کہہ دیتے ہیں کہ وہاں کے اعلیٰ مدارج جو ہیں وہ بھی ہمارے ہی لئے ہیں اور ہم ہی کو وہاں انعام و اکرام ملنے والے ہیں اور اس طرح تسلی سے بات کرتے ہیں گویا انہوں نے غیب سے سب کچھ معلوم کرلیا ہے اور ان کو پورا یقین ہے کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اس کے خلاف ہو ہی نہیں سکتا۔ اس طرح کے لوگوں کا یہ کلام سورة الطور میں بھی آیا ہے جیسا کہ سورة الطور کی آیت 41 میں ہے اور سورة النجم کی آیت 35 تا 38 میں بھی اس کا بیان گزر چکا ہے اگر آپ ان دونوں مقامات کو ساتھ ملا لیں تو مفہوم بہت واضح ہوجائے گا۔ سورة النجم اور سورة الطور کے لئے غزوۃ الوثقی جلد ہشتم کو اٹھانا پڑے گا۔
Top