Urwatul-Wusqaa - Al-Qalam : 4
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ : البتہ اخلاق کے بلند مرتبے پر ہیں
اور بلاشبہ آپ کا خلق عظیم الشان ہے
بلاشبہ آپ ﷺ کا خلق نہایت ہی عظیم الشان ہے 4 ؎ (خلق) عادت ، خصلت ، خو ، خلق جمع اخلاق۔ عقائد و عبادات کے بعد تعلیمات نبوی کا تیسرا باب اخلاق ہے۔ اخلاق سے متقصود باہم بندوں کے حقوق و فرائض کے وہ تعلقات ہیں جن کو ادا کرنا ہر انسان کے لئے مناسب بلکہ ضروری ہے۔ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس دنیا کی ہر شے سے تھوڑا بہت اس کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔ اس تعلق کے فرض کو بحسن و خوبی انجام دینا اخلاق ہے۔ اس کے اپنے ماں باپ ، اہل و عیال ، عزیز و رشتہ دار ، دوست و احباب سب سے تعلقات ہیں بلکہ ہر اس انسان کے ساتھ اس کا تعلق ہے جس سے وہ محلہ ، وطن ، قومیت ، جنسیت یا اور کسی نوع کا علاقہ رکھتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر حیوانات تک سے اس کے تعلقات ہیں اور ان تعلقات کے سبب سے اس پر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں۔ دنیا کی ساری خوشی ، خوشحالی اور امن وامان اسی اخلاق کی دولت سے ہے۔ اسی دولت کی کمی کو حکومت و جماعت اپنے طاقت و قوت کے قانون سے پورا کرتی ہے اگر انسانی جماعتیں ، اپنے اخلاقی فرائض کو پوری طرح از خود انجام دیں تو حکومتوں کے جبری قوانین کی کوئی ضرورت ہی نہ ہو۔ اس لئے بہترین دین و مذہب وہ ہے جس کا اخلاقی دبائو اپنے ماننے والوں پر اتنا ہو کہ وہ ان کے قدم کو سیدھے راستے سے بہکنے نہ دے۔ دنیا کے سارے مذاہب نے کم و بیش اس کی کوشش کی ہے اور اس دنیا کے آخری دین و مذہب اسلام نے بھی یہی کیا ہے۔ اسلام کی ان مساعی اور کوششوں کا باب اتنا لمبا ہے کہ اس جگہ تفصیل کی گنجائش ممکن ہی نہیں ہے اور اختصار سے کچھ کہنے کے سوا چارہ بھی نہیں ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ : (بعثت لاتمم مکارم الاخلاق و محاسن الاعمال) ” میں بزرگ ترین اخلاق اور بہت ہی اچھے اعمال کی تکمیل کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ “ اسلام نے ہم کو بتایا ہے کہ اخلاق رذیلہ کے منبع چار ہیں : (1) جہل (2) ظلم (3) شہوت (4) غضب۔ (1) تاثیرات جہل میں سے ہے کہ ہر اچھی شے کو بری اور بری شے کو اچھی شکل میں نمایاں کرتا ہے۔ کمال کو نقص اور نقص کو کمال دکھاتا ہے۔ سیدنا یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا ہے کہ : (اصب الیھن واکن من الجاھلین) (12 : 23) ” اگر میں ان عورتوں کی باتوں میں پھنس گیا تو میں جاہل ہو جائوں گا۔ “ (2) تاثیرات ظلم میں سے ہے کہ کسی شے کو اس کے غیر محل میں رکھا جائے جیسے خوشنودی کے مقام پر خفگی ، سخاوت کے مقام پر بخل ، بخل کے مقام پر بذل ، نرمی کے مقام پر سختی اور سختی کے مقام پر نرمی۔ انکسار کے مقام پر تکبر اور وقار کے مقام پر انکسار یعنی حقوق غلط استعمال اور غلط استعمال پر دعویٰ استحقاق۔ قرآن کریم میں (ان الشرک لظلم عظیم) حقوق الٰہی کا غصب کرنا اور ان حقوق کا استعمال دوسرے کے لئے جائز سمجھنا بزرگ ترین ظلم ہے۔ (3) تاثیرات شہوت میں سے ہے کہ مرض بخل اور تنگ دلی کو ترقی ہوتی ہے۔ حصہ غیر پر حملہ کیا جاتا ہے۔ وقار نفس اور پارسائی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے : (اعطی کل ذی حق حقہ) اللہ تعالیٰ نے ہر ایک حقدار کو اس کا حق ادا فرما دیا ہے۔ فرمایا (لا تقربوا الزنا انہ کان فاحشۃ وساء سبیلا ) (بنی اسرائیل : 32) ” زنا کے قریب بھی نہ جائو یہ کھلی بےحیائی ہے اور بہت بڑی سڑک ہے۔ “ (4) تاثیرات غضب میں سے تکبر ، کینہ ، حسد ، بغاوت اور سفاہت پیدا ہوتے ہیں۔ ایک شخص نے آپ ﷺ سے تین بار درخواست کی کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائی جائے تو آپ ﷺ نے ہر بار اس کو یہی جواب دیا کہ : (لاتغضب) غیظ و غضب سے دور رہو۔ اس طرح ہم کو اسلام نے بتایا ہے کہ اخلاق محمودہ کے سرچشمے چار ہیں : (1) صبر (2) عفت (3) شجاعت (4) عدل (1) صبر کے نتائج میں اس نے ہم کو تعلیم دی ہے کہ برداشت مصائب ، غصہ پی جانا ، عدم ایذا دہی ، بردباری ، خاکساری ، گھبراہٹ کا نہ ہونا اور کسی پر خواہ مخواہ حملہ نہ کرنا۔ صبر کا ذکر قرآن کریم میں تقریباً ستر بار آیا ہے اور ہم اس کی وضاحت غزوۃ الوثقی جلد پنجم میں سورة طہ کی آیت 130 کے ضمن میں کرچکے ہیں وہاں سے ملاحظہ کریں۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں اس کا بیان آیا ہے اگر اس کو جمع کریں تو اس کو تقریباً 6 اصناف پر بیان کیا گیا ہے۔ امام احمد بن حنبل (رح) نے فرمایا ہے کہ نصف ایمان کا نام صبر ہے اور نصف کا نام شکر۔ (2) عفت کے نتائج یہ ہیں ، رذائل و قبائح سے اجتناب ، قولاً و فعلاً پاکیزگی ، عفت سے حیا پیدا ہوتی ہے اور حیاء کا اثر ہر ایک خلق نیک پر ہے۔ عفت سے جھوٹ ، بخل اور بدکاری کا ستیاناس ہوتا ہے۔ (3) شجاعت کے نتائج ہیں کہ اپنی عزت کو آپ ملحوظ خاطر رکھنا۔ اچھے اور بہترین اخلاق کی تلاش میں رہنا۔ مال و جان سے دوسروں کی امداد کرنا۔ طیش و غضب سے دور رہنا۔ اپنے نفس کی باگ عقل کے سپرد کردینا جیسا کہ حدیث میں آتا ہے : (لیس الشدید بالصرعۃ انما الشدید الذی بملک نفسہ عند الغضب ) ” پہلوان وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دیتا ہے پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو سنبھال لیتا ہے۔ (4) عدل کے نتائج میں اعتدال ، اخلاق اور افراط وتفریط کو چھوڑ کر وسط کو اختیار کرلینا عدل بتاتا ہے کہ جود و سخا اسے کہتے ہیں جو بخل اور اسراف کے درمیان ہو۔ عدل بتاتا ہے کہ حیا وہ ہے جو ذلت و بےشرمی کا میانہ ہے۔ عدل بتاتا ہے کہ شجاعت اسے کہتے ہیں جو جبن اور تہور کا وسط ہو۔ عدل بتاتا ہے کہ حلم یہ ہے کہ تکبر و امانت کے بیچ بیچ ہو۔ ان تصریحات سے ظاہر ہے کہ اسلام نے اخلاق حسنہ کے بیان میں کس قدر زیادہ حصہ لیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ : (البر حسن الخلق) ” اچھے خلق ہی کا نام نیکی ہے “ (مسلم عن نوای بن سبحان ؓ آپ ﷺ نے فرمایا ، (خیار کم احاستکم اخلاقاً ) ” نیک اور بہتر وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں “ ایک حدیث میں ہے کہ : (مامن شی ئِ اثفل فی میزان ال مومن یوم القیامۃ من خلق حسن) ” قیامت کے دن مومن کے ترازو میں سب سے زیادہ وزن دار شے اچھے اخلاق ہیں ، ان سے بڑھ کر کوئی چیز بھاری نہ ہوگی۔ “ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : (وان اللہ لیبغض الفاحش البذی) ” اللہ تعالیٰ ہر ایک بےحیا ، بدزبان سے بغض رکھتا ہے “ (ترمذی ، ابودائود و عن ابوالدرداء ؓ عنہض اسلام میں اخلاق کو جو اہمیت حاصل ہے وہ اس سے ظاہر ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ نماز میں جو دعا مانگتے تھے اس میں آپ ﷺ اکثر ارشاد فرماتے : (واھدنی لاحسن الاخلاق لایھدی لا حسنھا الا انت واصرف عنی سیا تھا لا یصرف عنی سیا تھا الا انت) (مسلم باب الدعا فی الصلوٰۃ) ” اور اے میرے اللہ ! تو مجھ کو بہتر سے بہتر اخلاق کی راہنمائی فرما کر تیرے سوا کوئی بہتر سے بہتر اخلاق کی راہ نہیں دکھا سکتا اور بڑے اخلاق کو مجھ سے پھیر دے اور ان سے کوئی نہیں پھیر سکتا مگر تو “ ان الفاظ کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوگا کہ ایک اللہ کا رسول وہ بھی خاتم النبیین اپنے تقرب اور استجابت کے بہترین موقع پر بارگاہ الٰہی سے جو چیز مانگتا ہے وہ حسن اخلاق ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی بعثت کسی خاص قوم یا زمانہ تک محدود نہیں اس لئے آپ ﷺ کو اخلاقی تعلیم کا جو صحیفہ عنایت ہوا اس کو صرف ایک قوم یا زمانہ کی اخلاقی اصلاح تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ تمام قوموں اور زمانوں تک وسیع کہا گیا اس لئے تمام قوموں اور زمانوں میں جو برائیاں پائی جاتی ہیں یا پائی جانے والی تھیں۔ ان سب کا استقصار کر کے منع کیا گیا اور اس طرح تمام انسانی اخلاقی محاسن کو بھی کھول کر بیان کیا گیا اور ان کے حصول کی تاکید کی گئی۔ گزشتہ صحیفوں میں جن برائیوں سے روکا گیا تھا یا جن نیکیوں کی تعلیم دی گئی تھی۔ آپ ﷺ کی وحی مبارک نے ان کی تمام جزئیات کا استقصار کیا اور ان کے گوشہ گوشہ کو کھول کر روشن کرایا۔ ذیل میں ہم ان اخلاقی تعلیمات کی ایک مجمل فہرست درج کرتے ہیں جن کی تعلیم یا ممانعت قرآن کریم نے کی ہے۔ مفصل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔ قرآن کریم میں جو اخلاق دیئے گئے ہیں ان کی مجمل فہرست اس طرح ہے : سچ بولنا ، جھوٹ کی برائی بیان کرنا اور جھوٹ سے نفرت ، علم بےعمل کی مذمت ، عام عفو و درگزر ، توکل ، صبر ، شکر ، حق پر استقامت ، اللہ کی راہ میں جان دینا ، سخاوت اور خیرات کا حکم ، بخل کی برائی ، اسراف اور فضول خرچی کی ممانعت ، میانہ روی کی تاکید ، عزیزوں ، قرابت داروں ، ییموں اور مسکینوں اور پڑوسیوں کے ساتھ نیکی ، مسافروں ، سائلوں اور غریبوں کی امداد ، غلاموں اور قیدیوں کے ساتھ احسان ، فخر و غرور کی برائی ، امانت داری ، وعدہ کا ایفاء کرنا ، عہد کا پورا کرنا ، معاہدوں کا لحاظ رکھنا ، صدقہ و خیرات ، نیکی اور بھلائی کی بات کرنا ، آپس میں لوگوں کے درمیان محبت پیدا کرنا ، کسی کو برا بھلا نہ کہنا ، کسی کو نہ چڑانا ، نہ برے ناموں سے یاد کرنا۔ والدین کی خدمت اور اطاعت ، ملاقاتوں میں باہمی بھلائی اور سلامتی کی دعا دینا ، حق گوئی ، انصاف پسندی ، سچی گواہی دینا ، گواہی کو نہ چھپانا ، جھوٹی گواہی کا دل کی گنہگاری پر اثر ، نرمی سے بات کرنا ، زمین پر اکڑ کر نہ چلنا ، صلح جوئی ، اتحاد و اتفاق ، ایمانی برادری ، انسانی برادری ، اکل حلال ، روزی خود حاصل کرنا ، تجارت کرنا ، گداگری کی ممانعت ، لوگوں کو اچھی بات کی تعلیم دینا اور بری بات سے روکنا ، اولاد کشی ، خودکشی اور کسی دوسرے کی ناحق جان لینے کی ممانعت ، یتیم کی کفالت ، اس کے مال و جائیداد کی نیک نیتی کے ساتھ حفاظت ، ناپ اور تول میں بےایمانی نہ کرنا ، ملک میں فساد برپا نہ کرنا ، بےشرمی کی بات سے روکنا ، زنا کی حرمت ، آنکھیں نیچی رکھنا ، کسی کے گھر میں بےاجازت داخل نہ ہونا۔ ستر اور حجاب ، خیانت کی برائی ، آنکھ ، کان اور دل کی بازپرس ، نیکی کے کام کرنا ، لغو سے اعراض ، امانت و عہد کی رعایت ، ایثار ، تحمل ، دوسروں کو معاف کرنا ، دشمنوں سے درگزر ، بدی کے بدلہ نیکی کرنا ، غصہ کی برائی ، مناظروں اور مخالفوں سے گفتگو میں آداب کا لحاظ ، مشرکوں کے بتوں تک کو برا نہ کہنا ، فیصلہ میں عدل و انصاف ، دشمنوں تک سے عدل و انصاف ، صدقہ و خیرات کے بعد لوگوں پر احسان دھرنے کی برائی ، الاہنے کی مذمت ، فسق و فجور سے نفرت ، چوری ، ڈاکہ ، رہزنی اور دوسرے کے مال کو بےایمانی سے لے لینے کی ممانعت ، دل کا تقویٰ اور پاکیزگی ، پاکبازی جتانے کی برائی ، رفتار میں وقار و متانت ، مجالس میں حسن اخلاق ، ضعیفوں ، کمزوروں اور عورتوں کے ساتھ نیکی ، شوہر کی اطاعت ، بیوی کا حق ادا کرنا ، ناحق قسم کھانے کی برائی ، چغل خوری ، طعنہ زنی اور تہمت دھرنے کے ممانعت ، جسم و جان اور کپڑوں کی پاکیزگی اور طہارت ، شرمگاہوں کی ستر پوشی ، سائل کو نہ جھڑکنا ، یتیم کو نہ دبانا ، خدا کی نعمت کو ظاہر کرنا ، غیبت نہ کرنا ، بدگمانی نہ کرنا ، سب پر رحم کرنا ، ریا اور نمائش کی ناپسندیدگی ، قرض دینا ، قرض معاف کرنا۔ سود اور رشوت کی ممانعت ، ثبات قدم ، استقلال اور شجاعت و بہادری کی خوبی ، لڑائی کے گھسمان سے نامردی سے بھاگ کھڑا ہونے کی برائی ، شراب پینے اور جوا کھیلنے کی ممانعت ، بھوکوں کو کھانا کھلانا ، ظاہری اور باطنی ہر قسم کی بےشرمی کی باتوں سے پرہیز ، بےغرض نیکی کرنا ، مال و دولت سے محبت نہ ہونا ، ظلم سے منع کرنا ، لوگوں سے بےرخی نہ کرنا ، گناہ سے بچنا ایک دوسرے کو حق پر قائم رکھنے کی فہمائش ، معاملات میں سچائی اور دیانتداری۔ احادیث میں دیئے گئے اخلاق کی ایک مجمل فہرست اس طرح ہے اسلام کا اخلاقیات کا بڑا ذخیرہ نبی اعظم و آخر ﷺ کے اقوال میں ہے جو آپ ﷺ کی احادیث میں مذکور ہیں اور ان کی کثرت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ کنزل العمال میں جو ہر قسم کی حدیثوں کا سب سے بڑا مجموعہ ہے۔ آنحضرت ﷺ کی اخلاقی تعلیمات باریک ٹائپ کی بڑی تقطیع کے 187 صفحوں میں ہیں ، جن میں سے ہر صفحہ میں 37 سطریں ہیں اور تعداد کے اعتبار سے یہ تین ہزار نو سو چھ حدیثیں ہیں جو ڈھائی سو کے قریب مختلف اخلاقی ابواب و عنوانات میں منقسم ہیں۔ ان میں سے بعض مکرر باتیں بھی ہیں۔ تاہم ان سے اندازہ ہوگا کہ انسان کی اخلاقی و نفسانی کیفیات و حالات کا کوئی ایسا جز نہ ہوگا جو داعی اسلام (علیہ السلام) کی تلقینات کی فہرست سے رہ گیا ہو اور جس پر دنیا کے سب سے بڑے اور سب سے آخری اخلاقی معلم کی نگاہ نہ پڑی ہو۔ ہم ذیل میں آنحضرت ﷺ کی اخلاقی تعلیمات کے صرف وہ عنوانات لکھتے ہیں جو صحیح بخاری ، جامع ترمذی اور سنن ابی دائود میں مذکور ہے۔ صلہ رحمی ، ماں باپ کے ساتھ سلوک ، بچوں سے محبت ، چھوٹوں کی محبت اور بڑوں کی عزت ، اپنے بھائی کو اپنے یہ مانند چاہنا ، ہمسایوں کے ساتھ سلوک ، غلاموں کے ساتھ سلوک ، غلاموں کا قصور معاف کرنا ، اہل و عیال کی پرورش ، یتیموں کی پرورش ، بیوہ کی خبر گیری ، حاجت مندوں کی امداد ، اندھوں کی دستگیری ، عام انسانوں کے ساتھ ہمدردی ، قرض داروں پر احسان ، فریادیوں کی فریاد رسی خلق کو نفع رسانی ، مسلمانوں کی خیر خواہی ، جانوروں پر شفقت اور رحم ، محسنوں کی شکر گزاری ، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ، بیماروں کی خدمت و عیادت ، حسد کی ممانعت ، دوسروں کی مصیبت پر خوش ہونے کی ممانعت ، شجاعت و بہادری ، لڑائی کے میدان سے بھاگنے کی برائی ، امیر و امام کی اطاعت ، مداومت عمل ، اپنے ہاتھ سے کام کرنا ، شیریں کلامی ، خوش خلقی ، فیاضی ، بدزبانی سے اجتناب ، مہمان نوازی ، شرم و حیا ، حلم و وقار ، غصہ کو ضبط کرنا ، عفو و درگزر ، صبر تحمل ، حسب و نسب پر فخاری کی مذمت ، بدگمانی کی برائی ، کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہونا۔ دوسروں کے گھر جا کر ادھر ادھر نہ دیکھنا۔ دوسرے بھائی کے لئے پیٹھ پیچھے دعا کرنا ، رفق و نرمی ، قناعت اور استغناء ، گداگری کی ممانعت ، اپنے گناہوں کی پردہ پوشی ، اپنے بھائیوں کے عیوب پر پردہ ڈالنا ، چغل خوری کی ممانعت ، تہمت لگانے کی برائی ، غیبت کی ممانعت ، بغض و کینہ کی ممانعت ، دوسروں کی ٹوہ لگانے کی ممانعت ، راز داری ، تواضع و خاکساری ، امانت داری ، گالی کی ممانعت ، منہ پر مدح و ستائش کی ممانعت ، لعنت کرنے کی ممانعت ، بخل کی ممانعت ، فضول گوئی کی ممانعت ، فضول خرچی کی ممانعت ، کبر و غرور کی مذمت ، ہنسی مذاق کی برائی ، نفس انسانی کا احترام ، ظلم کی ممانعت ، عدل و انصاف ، تعصب کی ممانعت ، سخت گیری کی ممانعت ، غم خواری و غم گساری ، توکل ، لالچ کی برائی ، رضا بالقضاء ، ماتم کی ممانعت ، قمار بازی کی ممانعت ، سچائی کی ہدایت اور جھوٹ کی ممانعت ، جھوٹی گواہی کی ممانعت ، جھگڑا فساد کرنے کی ممانعت ، باہم مصالحت کرانا ، ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ ناراض نہ رہے۔ منافقت اور دوزخی چال کی مذمت ، وعدہ خلافی کی ممانعت ، خیانت اور فریب کی ممانعت ، شرابی خوری ، زنا کاری اور چوری کی ممانعت ، طہارت و صفائی ، دوست و احباب کی ملاقات سلام و تحیت ، مصافحہ و معانقہ ، دیگر آداب ملاقات ، آداب مجلس ، آداب طعام ، آداب لباس ، آداب نشست و برخاست ، خانہ داری کے آداب ، سونے جاگنے کے آداب ، عورتوں کے متعلق خاص آداب و اخلاق و سلوک کے احکام۔ ان تفصیلات سے قیاس ہو سکے گا کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کے ذریعہ اخلاقیات کا کتنا عظیم الشان ذخیرہ انسانوں کو عطا کیا گیا ہے۔
Top