Urwatul-Wusqaa - Al-Qalam : 8
فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِیْنَ
فَلَا : پس نہ تُطِعِ : تم اطاعت کرو الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والوں کی
پس آپ ان جھٹلانے والوں کی بات (بالکل) نہ سنیں
آپ ﷺ ان جھٹلانے والوں کی بات کو بالکل نہ سنیں 8 ؎ (فلا تطع) اور تو حکم نہ مانے یا تو حکم نہ مانے گا۔ اطاعت سے مضارع کا صیغہ واحد مذکر حاضر اور لانفی کے لئے ہے اور (تطع) اصل میں تطبع تھا اور ان شرطیہ کے آنے سے ” ی “ جو حرف علت ہے حذف ہوگیا۔ اور ” تطبع “ سے تطع ہوگیا اور اس طرح آپ ﷺ کو جھٹلانے والوں کی بات کو نہ ماننے کا حکم دیا گیا۔ اس میں دیکھنے اور سمجھنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا آپ ﷺ ان کی باتوں کو ماننے لگے تھے یا آپ ﷺ پر ان کی باتوں کے ماننے کا شبہ ہوا تھا ؟ اگر نہیں تو اس کے معنی کیا ہوئے ؟ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ جب لوگوں کی باتوں کو سنتا ہے تو قدرتاً اس پر ان کی باتوں کا کچھ نہ کچھ اثر پڑتا ہے اور اس سے وہ دل تنگ ہوتا ہے اور اس تنگی کو دور کرنے کے لئے اس طرح کی بات کی جاتی ہے کہ آپ ان کی باتوں میں نہ آئیں۔ گویا ان کی باتوں کو سننے کے باوجود ان سنی کردیں اور ان کا اثر قبول نہ کریں اور یہ بات کہ مخاطب فرما کر آپ ﷺ کو امت کی سارے لوگوں کو تعلیم دے دی کہ اکثریت کے پروپیگنڈے کی قطعاً پروانہ کریں جس طرح یہ حق باتوں کو سن کر ان سے منہ پھیر دیتے ہیں آپ ان کی ناحق باتیں سن کر ان سے منہ پھیر دیں اور دیکھیں کہ ان کو ان کے کرتوتوں کی کس طرح سزا ملتی ہے۔ ذرا توقف کریں اور جو یہ کہتے ہیں سنتے رہیں اور دیکھیں کہ ان کو کس طرح ان کے کئے کی سزا ملتی ہے۔
Top