Urwatul-Wusqaa - Al-Haaqqa : 37
لَّا یَاْكُلُهٗۤ اِلَّا الْخَاطِئُوْنَ۠   ۧ
لَّا يَاْكُلُهٗٓ : نہیں خھائیں گے اس کو اِلَّا : مگر الْخَاطِئُوْنَ : خطا کار
جس کو سوائے گنہگاروں کے کوئی نہیں کھائے گا
جس کو سوائے گنہگاروں کے اور کوئی نہیں کھائے گا 37 ؎ اس طرح کی گندی چیز ان کو پینے کے لئے کیوں پیش کی جائے گی ؟ فرمایا اس لئے کہ یہ لوگ دنیا میں جائز و ناجائز ، حلال و حرام میں تحقیق نہیں کرتے تھے بلکہ حلال کی بجائے حرام کو بڑی رغیبت سے کھاتے ، پیتے اور اکٹھا کرتے تھے پھر جس طرح کی ان کی خطائوں کی نوعیت تھی اسی طرح ان کے ساتھ سلوک کیا جانا ضروری تھا۔ یہ زخموں کی دھو ون کیا ہے ؟ ایک ناپاک اور حرام چیز ہی تو ہے اور ذرا غور کرو کہ شراب کیا ہے ؟ سود کیا ہے ؟ کسی کا ناجائز طریقوں سے غصب کیا ہوا مال کیا ہے ؟ یہ رشوتیں کیا ہیں جو ملک کے صدر ، وزیراعظم ، وزیراعلیٰ اور دوسرے تمام وزیروں کے منہ کو نامراد لگی ہوئی ہیں اور اترنے کا نام ہی نہیں لیتی ہیں۔ پیٹ کی خاطر دین میں افراط اور تفریط کے ساتھ کمایا ہوا مال کیا ہے ؟ بڑے بڑے لوگ جو کارخانوں میں سارا سال اٹھا کر کروڑوں بوریوں کو گوداموں میں بند کردیتے ہیں اور پھر مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں یہ کیا ہے ؟ اگر یہ سب کچھ بھی حرام اور ناپاک ہے تو پھر کسی حرام اور ناپاک کو دوڑ دوڑ کر حاصل کرنا اور ناپاک اور حرام سے نفرت کرنا یہ دوغلی پالیسی ان کو کس نے بتائی ہے اور کس نے ان ساری چیزوں کو جائز اور حلال کہا ہے ؟ پھر ان حرام خوروں کو سزا کے طور پر حرام ہی پیش کیا جائے اور یہ گندے لوگ اس کو بھی ڈک ڈک کر پی جائیں تو اس میں آخر تعجب کی بات کیا ہے ؟ کیا حرام اور حلال ان کے اختیار کی بات ہے یا وہ کسی کو حلال قرار دے لیں اور کسی کو حرام قرار دے لیں۔ کیا اللہ کے حکم کا نام حلال و حرام نہیں ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ ان کو جب کہ حرام ان کے منہ کو لگ چکا ہے ہم کتنا ہی ناپاک سے ناپاک ان کو پیش کریں گے تو یہ پی جائیں گے اور یہ بات اپنی جگہ محقق ہے کہ ناپاک لوگوں کے علاوہ ایسی گندی چیز کو کوئی بھی پینے کے لئے تیار نہیں ہوگا بس یہی ہیں کہ جو کچھ بھی ان کو پیش کیا جائے گا وہ بغیر کسی حیل و حجت کے اس کو پی جائیں گے۔
Top