Urwatul-Wusqaa - Al-Haaqqa : 4
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَ عَادٌۢ بِالْقَارِعَةِ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا ثَمُوْدُ : ثمود نے وَعَادٌۢ : اور عاد نے بِالْقَارِعَةِ : کھڑکا دینے والی کو
ثمود و عاد نے اس دل ہلا دینے والی (گھڑی) کو جھٹلایا
ثمود اور عاد نے اسی دل ہلا دینے والی گھڑی کو جھٹلایا 4 ؎ قوم ثمود کی طرف صالح (علیہ السلام) اور قوم عاد کی طرف ہود (علیہ السلام) نبی بنا کر مبعوث کئے گئے ۔ ان دونوں نبیوں کی سرگزشت میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ قوم کو انہوں نے کیا درس دیا اور قوم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ زیر نظر آیت میں ان کی داستانوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے بھی قیامت کے بپا ہونے کا انکار کیا اور پھر انکار کرتے ہی چلے گئے ان کی نبیوں نے ان کے سامنے قیامت کی تفصیلات رکھیں لیکن انہوں نے جھٹلانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور اپنے نبیوں کی مخالفت ہی کے باعث ان کو تباہ و برباد کردیا گیا۔ اوپر کے ذکر میں قیامت کو (الحاقۃ) کے نام سے یاد کیا گیا اور اس جگہ قیامت کو (القارعۃ) کا نام دیا گیا اور یہ بات ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ قیامت کے نام قرآن کریم میں بیسیوں مذکور ہیں اس لئے ان ناموں میں سے کسی نام سے بھی اس کو یاد کیا جاسکتا ہے اور (القارعۃ) کے معنی ایک سخت چیز کے دوسرے سخت چیز کے ساتھ ٹکرانے کے ہیں اور ظاہر ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی تو نظام کائنات درہم برہم ہوگا اور اس حالت میں ایک چیز کے دوسری چیز کے ساتھ ٹکرانے سے کون انکار کرسکتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ قیامت پر ایمان لانے کا حکم سب قوموں کو ایک جیسا تھا اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت پر ایمان لانا اتنی بڑی اہمیت کیوں رکھتا ہے۔ یہ اہمیت اس لئے ہے کہ انسان کی اصلاح کا دارومدار اس کو صدق دل کے ساتھ ماننے پر ہے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے باز آجاتے ہیں اور اس کی یاد میں بڑے پرسکون رہتے ہیں اور جو قیامت پر ایمان نہیں رکھتے وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے کبھی باز نہیں آتے۔ جن لوگوں کے نزدیک قبر کا تاریک اور خاموش گڑھا زندگی کی آخری منزل ہے وہ قدم قدم پر پھسلتے ہیں اور نفس امارہ کو خوش کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑتے ہیں اور سنبھلنے کے لئے ان کے پاس کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ وہ ایک بار راہ راست سے بھٹک گئے تو بس سیدھے جہنم رسید ہوگئے۔
Top