Urwatul-Wusqaa - Al-Haaqqa : 42
وَ لَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَؕ
وَلَا بِقَوْلِ : اور نہ ہی قول ہے كَاهِنٍ : کسی کا ہن قَلِيْلًا مَّا : کتنا تھوڑا تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑتے ہو
اور یہ کسی کاہن کا کلام (بھی) نہیں تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو
یہ کسی کاہن کا کلام بھی نہیں تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو 42 ؎ اور یہ کلام کسی کاہن کا کلام بھی نہیں ہے کیونکہ کاہن کا کلام اتنا واضح اور اتنا مربوط کہ ایک بار جو بات کہی حالات زمانہ کچھ سے کچھ ہوتے چلے گئے لیکن وہ بات اپنی جگہ پر حق ہی رہی ، اس میں ذرا بھر بھی فرق نہ پڑا۔ اللہ کے کلام ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر نہ ماننے والوں سے مطالبہ کیا کہ تم کہتے ہو کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ خود محمد رسول اللہ ﷺ نے گھڑ لیا ہے۔ اگر تمہارا یہ دعویٰ سچا ہے تو اٹھو اور تم بھی اس جیسا کلام گھڑ کرلے آئو۔ پھر مطالبہ میں نرمی کی اور یہ کہہ کہ چلو اس جیسی دس سورتیں ہی گھڑ کرلے آئو پھر مزید نرمی کرتے ہوئے ایک سورت کے لانے کا مطالبہ کیا لیکن کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ سامنے کھڑا ہو اور تین آیتوں کو ایک سورت میں لا کر پیش کر دے۔ اگر یہ کسی کاہن کا کلام ہوتا تو کیا ایک کاہن کے مقابلہ میں کسی دوسرے کاہن کے کلام میں اس طرح کے چیلنج کی کوئی مثال آپ پیش کرسکتے ہیں۔ کاہن کا کام کیا ہے یہی کہ ایک سچ میں سو جھوٹ ملایا اور اس ایک سچ کے ساتھ سو جھوٹ چلا دیا اور ایک سچ کو سو جھوٹ کے لئے ثبوت بنانے کی کوشش کی جس کو زمانہ جان گیا کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ آیات جو اس جگہ بیان ہوئی ہیں دراصل سورة الشعراء کی آیت 192 سے آخر سورت تک چلی گئی ہیں اور اس مضمون کو ہم نے وہاں بہت کھول کر بیان کردیا ہے اس لئے غزوہ الوثقی جلد ششم میں سورة الشعراء کی ان آیات کی وضاحت دیکھنا بھی مفید مطلب ہوگا کیونکہ وہاں مفصل بیان تحریر ہوا ہے۔ مختصر یہ کہ کوئی دعویٰ بغیردلیل کے ثابت نہیں کیا جاسکتا لیکن تعجب ان لوگوں پر ہے جس بات کا انہوں نے دعویٰ کیا ہے ان میں سے ایک بات کے لئے بھی انہوں نے کوئی دلیل پیش نہیں کی صرف خالی بات کہہ دی ہے اور اس کے مقابلہ میں قرآن کریم نے ایک ایک بات پر سینکڑوں دلائل پیش کئے اور اتنے مضبوط دلائل پیش کئے کہ اگر کسی ایک بات پر غورو فکر کرتے تو اس کو اللہ کا کلام ماننے کے لئے مجبور ہوجاتے لیکن جب کوئی شخص عقل و فکر کی بات پر غور کرنے یہ سے گریز کرے اور محض ہٹ دھرمی کے ناطے بغیر دلیل کے ایک بات کہتا چلا جائے تو اس کے نصیحت حاصل کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا اور کفار مکہ کے کفر کی بس ایک وجہ ہے ورنہ وہ کسی دلیل کے باعث تو کفر پر قائم نہیں رہ سکتے تھے۔
Top