Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 100
اَوَ لَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ١ۚ وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ
اَوَلَمْ : کیا نہ يَهْدِ : ہدایت ملی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَرِثُوْنَ : وارث ہوئے الْاَرْضَ : زمین مِنْۢ بَعْدِ : بعد اَهْلِهَآ : وہاں کے رہنے والے اَنْ : کہ لَّوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہتے اَصَبْنٰهُمْ : تو ہم ان پر مصیبت ڈالتے بِذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہوں کے سبب وَنَطْبَعُ : اور ہم مہر لگاتے ہیں عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ لَا يَسْمَعُوْنَ : نہیں سنتے ہیں
پھر جو لوگ ملک کے وارث ہوتے ہیں کیا وہ یہ بات نہیں پاتے کہ اگر ہم چاہیں تو انہیں بھی گناہوں کی وجہ سے مصیبتوں میں مبتلا کردیں اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیں کہ کوئی بات سنیں ہی نہیں ؟
کسی کا سنی بات کو ان سنی کردینا قہر الٰہی کی مہر کی تمہید ہے : 111: مطلب یہ ہے کہ منکرین و مکذبین سابق کا انجام دیکھ کر بھی کیا یہ حقیقت ابھی کفار و معاصرین پر منکشف نہیں ہوئی ہے ؟ اللہ نے جس ترازو اور جس باٹ سے ان کو تولا اسی باٹ اور اسی ترازو سے آخر ان کو کیوں نہیں تو لے گا ؟ آخر وہ کیوں نہیں سوچتے کہ جس طرح ہم نے ان کو ان کے جرموں کی پاداش میں ہلاک کردیا اسی طرح جب چاہیں ان کو بھی ہلاک کردیں اور جس طرح ان کا جانشین ہم نے ان کو بنایا اب ان کا جانشین دوسروں کو بنا دیں تو پھر کیا یہ لوگ ہم کو اس سے باز رکھ لیں گے ؟ ” اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیں “ یعنی جب یہ لوگ واقعات ماضیہ سے بھی کوئی عبرت اور ہدایت حاصل نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غضب الٰہی سے ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے پھر وہ کچھ نہیں سنتے۔ حدیث میں نبی اعظم و آخر ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جب کوئی انسان پہلے پہل گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک نقطہ سیاہی کا لگ جاتا ہے ، دوسرا گناہ کرتا ہے تو دوسرا نطقہ اور تیسرا گناہ کرتا ہے تو تیسرا نقطہ لگ جاتا ہے یہاں تک کہ اگر وہ برابر گناہوں میں بڑھتا ہی گیا اور توبہ نہ کی تو سیاہی کے نقطے اس کے سارے قلب کو گھیر لیتے ہیں اور انسان کے دل میں جو اللہ تعالیٰ نے فطری مادہ بھلے برے کی پہچان اور برائی سے بچنے کا رکھا ہے وہ فنا یا مغلوب ہوجاتا ہے اور اس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ اچھی چیز کو برا اور بری کو اچھا ، مفید کو مضر اور مضر کو مفید خیال کرنے لگتا ہے اس حالت کو قرآن کریم نے ” ران “ یعنی قلب کے زنگ سے تعبیر کیا ہے۔ اس جگہ ایک بات مزید قابل نظر ہے وہ یہ ہے کہ دل پر مہر لگ جانے کا نتیجہ تو عقل و فہم کا معدوم ہوجانا ہے ، کانوں کی سماعت پر تو اس کا کوئی اثر عادتاً نہیں ہوتا تو موقع اس بات کا تھا کہ اس جگہ ” وہ نہیں سمجھتے “ کہا جاتا مگر قرآن کریم میں اس جگہ ” نہیں سنتے “ ارشاد فرمایا گیا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ سننے سے مراد اس جگہ ماننا اور اطاعت کرنا ہے جو نتیجہ ہے سننے کا۔ مطلب یہ ہے کہ دلوں پر مہر لگ جانے کے سبب وہ کسی حق بات کو ماننے پر تیار نہیں ہوتے اور یہ بھی کہ انسان کا قلب ہی اس کے تمام جوارح کا مرکز ہے جب قلب کے افعال میں خلل آتا ہے تو سارے اعضاء کے افعال مختل ہوجاتے ہیں جب دل میں کسی بات کی بھلائی یا برائی سما جاتی ہے تو پھر یہ چیز ہی نظر آتی ہے یعنی اس کی آنکھوں سے بھی وہی کچھ نظر آتا ہے اور کانوں سے بھی وہی سنائی دیتا ہے : چشم بد اندیش کہ برکندہ باد عیب نماید ہنرش در نظر
Top