Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 104
وَ قَالَ مُوْسٰى یٰفِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
وَقَالَ : اور کہا مُوْسٰي : موسیٰ يٰفِرْعَوْنُ : اے فرعون اِنِّىْ : بیشک میں رَسُوْلٌ : رسول مِّنْ : سے رَّبِّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ” اے فرعون ! میں اس کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے “
موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے دربار میں اپنی نبوت کا اعلان کردیا : 115: زیر نظر آیت میں صرف موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہے اور دوسرے مقامات پر فرعون سے پہلی ملاقات کے وقت ہارون (علیہ السلام) کا بھی ساتھ ہونا بیان ہوا ہے۔ غرض دونوں بھائی اور اللہ کے سچے پیغمبر اور رسول فرعون کے دربان میں پہنچ گئے اور بغیر خوف وخطر اللہ کا پیغام اس طرح پہنچایا کہ گفتگو شروع ہوتے ہی انہوں نے اپنے آنے کی وجہ بیان فرمائی کہ اے فرعون ! ہم دونوں کو اللہ نے اپنا رسول بنا کر تیرے پاس بھیجا ہے ہم تجھ سے دو اہم باتیں چاہتے ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ پر سچا یقین لا اور کسی کو اس کا ساجھی اور سہیم نہ بنا دوسرے یہ کہ ظلم سے باز آ اور بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے نجات دے ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے کہہ رہے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ یہ بات آپ پیچھے پڑھ چکے ہیں کہ بنی اسرائیل یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں مصر میں آ کر آباد ہوئے تھے اور آہستہ آہستہ بڑھ کر وہ کافر تعداد میں پھیل گئے تا ہم مقامی باشندے ان کو نظر غیر ہی سے دیکھتے رہے اور خصوصاً حکومت کے کاموں میں ان کی دسترس ان کو ایک آنکھ نہ بھائی اور کچھ ہی مدت کے بعد مصر کے مقامی باشندوں نے ان کو دبا لیا اور ایسا دبایا کہ ان کے سپرد رذیل و ذلیل کام لگا دئیے اور طرح طرح کی سکیمیں لڑا کر ان کمزوروں کو مزید کمزور کردیا اور ملک میں ایسے قانون رائج کئے جن کی وجہ سے وہ غریب سے غریب تر اور غریب ترین ہی ہوتے چلے گئے تا آنکہ اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو قوم بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلانے کے لئے چن لیا۔
Top