Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 111
قَالُوْۤا اَرْجِهْ وَ اَخَاهُ وَ اَرْسِلْ فِی الْمَدَآئِنِ حٰشِرِیْنَۙ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَرْجِهْ : روک لے وَاَخَاهُ : اور اس کا بھائی وَاَرْسِلْ : اور بھیج فِي الْمَدَآئِنِ : شہروں میں حٰشِرِيْنَ : اکٹھا کرنیوالے (نقیب)
چناچہ انہوں نے کہا موسیٰ اور اس کے بھائی کو ڈھیل دے کر روک لے اور نقیب روانہ کر دے
فرعون کے سرداروں نے اپنے مشورہ کو مزید بڑھایا اور فیصلہ کن بات بتا دی : 122: فرعون کے سرداروں نے فرعون سے جس سوال کا جواب چاہا تھا اس کا انتظار بھی مناسب نہ سمجھا اور مزید اپنا مشورہ عرض کرتے ہوئے کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کو فی الحال اس طرح چھوڑ دو اور بات کو مزید آگے نہ بڑھائو اور آپ کے قلمرو میں بڑے بڑے ماہر جادو گر اپنی بات کو بڑی وضاحت سے پیش کرنے والے موجود ہیں آپ اپنے خاص آدمی بھیج کر اپنی مملکت کے چند جادوگروں کو جمع کرلیں جو مجمع عام میں موسیٰ کو دندان شکن جواب دیں اور موسیٰ کا سارا کھیل دھرے کا دھرا رہ جائے اگر آپ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل کا سر دلائل کے ساتھ نہ توڑا تو وہ ملک و ملت کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہوگا۔ یہی ایک تدبیر ہے جس سے ہم اپنی حکومت اور اپنی قوم کی سروری کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ اس ملک پر اصل مصریوں کا زیادہ حق ہے عبرانی ایک مدت کے بعد آئے اور آگ کے بہانے گھر کے مالک بن کر بیٹھ گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا دور گزر جانے کے بعد مصر میں ایک قوم پرستانہ انقلاب ہوا تھا اور قبطیوں کے ہاتھ میں جب دوبارہ اقتدار آیا تو نئی قوم پرست حکومت نے بنی اسرائیل کا زور توڑنے کے لئے پوری کوشش کی تھی اس سلسلے میں صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا گیا کہ اسرائیلیوں کو ذلیل و خوار کیا جاتا اور انہیں ادنیٰ درجے کی خدمات کے لئے مخصوص کرلیا جاتا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ بنی اسرائیل کی تعداد گھٹائی جائے اور ان کے لڑکوں کو قتل کر کے صرف ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے تاکہ رفتہ رفتہ ان کی عورتیں قبطیوں کے تصرف میں آتی جائیں اور ان سے اسرائیل کے بجائے قبطی نسل پیدا ہو جس شخصیت نے ان کی ان ساری مکاریوں کی نشاندہی کی اس کو وہ جادو گر نہ کہتے تو اور کیا کہتے ؟ مختصر یہ کہ فرعون نے اپنے درباریوں اور سرداروں کی بات کو تسلیم کیا اور موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کی باتوں کو زیادہ آگے نہ بڑھنے دیا اور اپنے نقیب بھیج کر موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ کی تیاریاں زور وشور سے شروع کردیں تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دندان شکن جواب دے کر اس کی تحریک کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔
Top