Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 130
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے بِالسِّنِيْنَ : قحطوں میں وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے (میں) الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم نے فرعون کی قوم کو خشک سالی کے برسوں اور پیداوار کے نقصان میں مبتلا کیا تھا تاکہ وہ متنبہ ہوں
قوم فرعون کو خشک سالی کے عذاب میں مبتلا کرنے کا ذکر : 141: یہ اس سنت الٰہی کا بیان ہے جو انبیاء کرام کی بعثت کے ساتھ لازماََ ظاہر ہوتی رہی اور ان تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کے زمانوں میں کسی نہ کسی رنگ میں ظاہر ہوئی جن کی سر گزشتیں قرآن کریم میں بیان کی گئیں۔ وہ سنت الٰہی یہ ہے کہ جب نبی توبہ و استغفار اور جزاء و سزاء کی منادی شروع کرتا تھا تو اس کے محرکات و مویدات اس کائنات میں بھی ظاہر ہونا شروع ہوجاتے تھے تاکہ اس بات کی بھی وضاحت ہوجائے کہ کس اللہ نے اس کائنات کا نظام بنایا اور جاری کیا ہے وہی اللہ تعالیٰ نبی و رسول کو بھیجنے والا ہے ۔ ایک طرف پیغمبر لوگوں کو غفلت و خدا فراموشی کے انجام ، فساد فی الارض کے نتائج اور دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے ڈراتا تھا دوسری طرف اللہ تعالیٰ لوگوں کو سیلاب ، قحط ، وباء اور طوفان کی آزمائشوں میں بھی مبتلا کرتا تھا تاکہ لوگ آنکھوں سے بھی اگر ان کے پاس دیدئہ بینا ہو تو دیکھ لیں کہ اللہ ان کو جب چاہے اور جہاں چاہے پکڑ سکتا ہے اور جب اللہ پکڑ لے تو اس کی پکڑ سے اس کی ذات کے سوا کوئی چھڑانے والا نہیں ہو سکتا۔ پھر جن لوگوں کے پاس دیکھنے والی آنکھیں اور اثر قبول کرنے والے دل ہوتے ہیں وہ ان آزمائشوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اس سنت الٰہی کی مکمل تشریح ہم کئی ایک مقامات پر کرچکے ہیں اور اس سورت کی آیت 94 , 95 کے تحت بھی اس کا ذکر ہوچکا ہے ۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ اس کو عذاب ادنیٰ کے الفاظ سے موسوم کیا ہے ۔ جس سے مراد وہ تکلیفیں ہیں جو اس دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں مثلاََ افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں ، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت ، المناک حادثات ، نقصانات ، ناکامیاں وغیرہ اور اجتماعی زندگی میں طوفان ، زلزلے ، سیلاب ، وبائیں ، قحط سالی ، فسادات ، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں ، لاکھوں ، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ عذاب اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور طرز فکر و عمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخر کارا نہیں وہ عذاب بھگتنا پڑے گا ۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی سے نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ اس سے بالا تر کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے۔ مختصر یہ کہ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ کسی قوم پر فیصلہ کن عذاب فوراََ ہی نہیں بھیج دیا جاتا بلکہ پہلے اسے مختلف قسم کی سختیوں سے دو چار کردیا جاتا ہے تاکہ اس کا سخت دل نرم ہوجائے اور وہ اس تنبیہ سے اپنی سابقہ کج روی کی تلافی کرے اور کبھی اس پر نعمتوں کی بارش کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے منعم حقیقی کو پہچان کر اور اس کی پیہم نوازشات سے متاثر ہو کر نافرمانی سے باز آجائے اور جب سمجھانے کے یہ سارے طریقے بھی بےاثر ہوجاتے ہیں تو پھر ان پر ایسا عذاب نازل کیا جاتا ہے جو ان کا نام و نشان تک مٹا دیتا ہے۔ اس سنت الٰہی کے مطابق آخری عذاب سے پہلے فرعونیوں کو کبیچ مصائب و تکالیف سے اور کبھی انعامات اور نوازشات سے ہوشیار کیا جاتا رہا۔ اس سلسلہ بیان کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے فرمایا ہم نے فرعون کی قوم کو خشک سالی کے برسوں اور پیداوار کے نقصانات میں مبتلا کیا تھا تاکہ وہ متنبہ ہوں ۔
Top