Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 131
فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ١ؕ اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓئِرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب جَآءَتْهُمُ : آئی ان کے پاس الْحَسَنَةُ : بھلائی قَالُوْا : وہ کہنے لگے لَنَا : ہمارے لیے هٰذِهٖ : یہ وَاِنْ : اور اگر تُصِبْهُمْ : پہنچتی سَيِّئَةٌ : کوئی برائی يَّطَّيَّرُوْا : بدشگونی لیتے بِمُوْسٰي : موسیٰ سے وَمَنْ مَّعَهٗ : اور جو ان کے ساتھ (ساتھی) اَلَآ : یاد رکھو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں طٰٓئِرُهُمْ : ان کی بدنصیبی عِنْدَ : پاس اللّٰهِ : اللہ وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
جب کبھی خوشحالی آتی تو کہتے یہ ہمارے حصے کی بات ہے (یعنی ہماری وجہ سے ہے) اور اگر ایسا ہوتا کہ سختی پیش آجاتی تو کہتے یہ موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کی نحوست ہے ، سن رکھو ان کی نحوست اللہ کے یہاں تھی لیکن بہتوں کو یہ بات معلوم نہیں
فرعونی خوشحالی کو اپنی طرف منسوب کرتے اور سختی کو موسیٰ (علیہ السلام) کی نحوست قرار دیتے : 142: جب کسی قوم پر اللہ تعالیٰ کا قہر ہوتا ہے تو صحیح بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی قوم فرعون بھی اسی قہر میں مبتلا تھی عذاب کے اس ابتدائی جھٹکا سے بھی ان کو کوئی تنبیہ نہ ہوئی بلکہ اس کو اور ہر آنے والی مصیبت کو وہ کہنے لگے کہ یہ نحوست موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کی وجہ سے ہے ۔ جب ان لوگوں کو کوئی راحت و آرام ملتا تو کہتے کہ یہ ہمارا حق ہے اور ہمیں ملنا چاہیے اور جب کوئی مصیبت اور برائی پیش آتی تو کہتے کہ یہ موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی نحوست سے ایسا ہوا ہے ۔ ایسی باتیں انہوں نے کیوں کیں ؟ اس لئے کہ جو آزمائشیں اور آفتیں لوگوں کے اندر توجہ الی اللہ یا قرآن کریم کے الفاظ کے مطابق تضرع پیدا کرنے کے لئے آتی ہیں وہ عام اور مشترک ہوتی ہیں ان میں نیک و بد دونوں ہی تپائے جاتے ہیں ۔ یہ صورت حال نادانوں اور سر کشوں کے لئے ایک وجہ فتنہ و مغالطہ بن جاتی ہے وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جب اس قحط یا وباء نے عقیدہ و کردار میں کوئی فرق نہیں کیا جس کا جو بھی عقیدہ اور جو کردار تھا وہ عذاب میں مبتلا ہوگیا اس کا نشانہ جس طرح ہم بنے اسی طرح ملامت گر اور ناصح بھی بنے تو یہ کس طرح تسلیم کیا جائے کہ اس کا کوئی رشتہ کفرو ایمان اور عقائد و اعمال سے ہے۔ یہ بات تو اس صورت میں صحیح ہوتی جب نبی اور اس کے ساتھی اس قحط یا آفت سے اس طرح بچا لئے گئے ہوتے کہ ان کے لئے تو آسمان سے من وسلویٰ اترتا ہو اور ہم سوکھے چمڑے چباتے ہوں۔ جب ایسا نہیں ہوا بلکہ ہم اور وہ دونوں اپنی اپنی جگہ گرفتار مصائب و آلام رہے تو یہ کس طرح مانا جائے کہ ان مصائب کا کوئی علاقہ لوگوں کی نیکی وبدی سے ہے ۔ کہنے کو تو وہ اس طرح کی باتیں کرتے لیکن جب ان کو کسی عذاب میں مبتلا کیا جاتا تو وہ پکار پکار کر کہنے لگتے کہ یہ موسیٰ کی نحوست ہے۔ ان کو جواب دیا جا رہا ہے کہ سن رکھو ان کی نحوست اللہ کے یہاں تھی لیکن بہت سے لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں۔ لفظ طائر کے اصلی معنی پرندے کے ہیں ۔ عرب پرندوں کے داہنی جانب اور بائیں جانب اڑنے سے فالیں لیا کرتے تھے اور بعض پرندوں کو نحس جانتے تھے اس لئے وہ مطلق فال کو بھی طائر کہنے لگے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی فال اچھی یا بری جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور جو کچھ اس عالم میں ظاہر ہوتا ہے سب اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت سے عمل میں آتا ہے نہ اس میں کسی کی نحوست کا دخل ہے نہ برکت کا یہ سب ان کی خام خیالی ہے ۔ ہاں ! اس طرح کے عذاب نازل فرما کر اللہ تعالیٰ ان کو جھنجھوڑ رہا ہے تاکہ وہ ایک بہت بڑے عذاب سے بچ جائیں ۔ اب یہ ان کی مرضی کی بات ہے چاہیں اس سے سبق حاصل کر کے توبہ و استغفار کریں اور چاہیں اس سے بڑے عذاب میں اپنے آپ کو جھونک دیں جو انہی کے اعمال کا نتیجہ ہوگا۔
Top