Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 15
قَالَ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ
قَالَ : وہ بولا اِنَّكَ : بیشک تو مِنَ : سے الْمُنْظَرِيْنَ : مہلت ملنے والے
فرمایا تجھے مہلت ہے
ابلیس نے جتنی مہلت طلب کی تھی اتنی نہ سہی تاہم ایک لمبی مہلت اس کو مل گئی : 15: زیر نظر آیت میں جو الفاظ ہیں کہ ” بیشک تجھ کو مہلت دی گئی ہے۔ “ یہ الفاظ خود اس بات کا تقاضا کر رہے ہیں کہ گویا پہلے ہی فیصلہ شدہ بات ہے کہ جتنی مہلت علم الٰہی میں طے ہے وہ پہلے ہی دی جا چکی ہے۔ ہاں ! اس نے جو مہلت طلب کی تھی وہ لوگوں کے دوبارہ اٹھائے جانے تک تھی اور اس کو یہ نہیں فرمایا گیا کہ تجھ کو دوبارہ اٹھائے جانے تک مہلت ہے بلکہ یہ فرمایا کہ ” تجھ کو مہلت دی گئی ہے “ چونکہ دوبارہ اٹھائے جانے سے پہلے ” کل من علیھا فان “ کا اعلان الٰہی لازم ہے اس لئے یقیناً اس کو مہلت اس وقت تک نہیں دی جاسکتی تھی کہ ہرچیز کے فنا ہونے میں اس کی فنا بھی ضروری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے دوسری جگہ اِلٰى یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ 0038 کے الفاظ ارشاد فرمائے کہ یہ مہلت اس کو کسی خاص مدت تک دی گئی ہے جو علم الٰہی میں محفوظ ہے : وھو یوم ینفخ فی الصور النفخۃ الاولیٰ فصعق من فی السموات ومن فی الارض فمات (ابن جریر ) ” اور وہ دن وہ ہے جس میں پہلا صور پھونکا جائے گا جس سے آسمان و زمین والے بیہوش ہوجائیں گے اور مرجائیں گے۔ “ پھر جیسا کہ اس سے قبل اس کی وضاحت کی جا چکی ہے کہ یہ سارا بیان فطرت انسانی کا ہے جو متضاد قوتوں کا مجموعہ ہے اور اس کو اس مکالمہ کے رنگ میں سمجھایا گیا ہے تاکہ ایک بات یاد رہے انسانوں کے ذہن نشین ہوجائے اور اس کے لئے پیرایہ بیان وہ اختیار کیا گیا جو انسانی عقل کی ابتدائی منزل ہے تاکہ ہر کہ ومہ اس بات کو اچھی طرح یاد رکھ سکے اور ویسے بھی اللہ کی ذات قادر ومختار ہے وہ چاہے انسان کو مخاطب کرے اور چاہے انسان کے جسم کے کسی ایک حصہ کو جیسے ہاتھ ، پائوں اور جلد ہر ایک کو وہ مستقل طور پر مخاطب کرسکتا ہے اور اسی طرح بعض اوقات انسان خود اپنے آپ کو اور اپنے کسی حصہ کو مخاطب کرتا ہے کیونکہ یہ فطرت ہے اور فطرت کبھی بدلا نہیں کرتی اور یہ بھی کہ یہ ذریت آدم (علیہ السلام) کے پہلو میں ذریت ابلیس کی مہلت ہو جیسا کہ خود نبی اعظم وآخر ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ہر ایک انسان کے ساتھ اس کا فرشتہ اور شیطان پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے فرمایا میرے ساتھ بھی میرا شیطان پیدا ہوا ” فقد اسلم “ بس میں نے اس کو فرمانبردار کرلیا اس طرح جب تک ذریت آدم پیدا ہوتی رہے گی اس کا شیطان بھی ساتھ پیدا ہوتا رہے گا اور اس کو اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ جب دونوں طرح کی قوتوں کے مجموعہ کا نام انسان ہے تو وہ طاقت وقوت تو ہر انسان کے اندر بھی موجود ہے جو اس کو برائی کی طرف آمادہ کرتی رہتی ہے اور انسان کے اندر طرح طرح کے وساوس پیدا ہوتے رہتے ہیں اور پھر کتنا احسان ہے اس رب کریم کا کہ وہ انسانیت کے احترام میں اس کی ان قوتوں تک مخاطب کرتا ہے جو اس کو برائی کا الہام کرتی ہیں اور اس کی مخالف قوتوں کو مخاطب کر کے ان پر قابو پانے کا حکم دیتا ہے تاکہ انسانیت کا احترام باقی رہے اور وہ حتی الامکان مجروح نہ ہو اور یہ ایک بہت ہی بڑا اعزاز ہے جو ؟ ؟ ؟ احسن التقویم کو عطا کیا گیا ہے۔
Top