Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 163
وَ سْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ١ۘ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّ یَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ١ۙ لَا تَاْتِیْهِمْ١ۛۚ كَذٰلِكَ١ۛۚ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ
وَسْئَلْهُمْ : اور پوچھو ان سے عَنِ : سے (متلع) الْقَرْيَةِ : بستی الَّتِيْ : وہ جو کہ كَانَتْ : تھی حَاضِرَةَ : سامنے (کنارے کی) الْبَحْرِ : دریا اِذْ : جب يَعْدُوْنَ : حد سے بڑھنے لگے فِي السَّبْتِ : ہفتہ میں اِذْ : جب تَاْتِيْهِمْ : ان کے سامنے آجائیں حِيْتَانُهُمْ : مچھلیاں ان کی يَوْمَ : دن سَبْتِهِمْ : ان کا سبت شُرَّعًا : کھلم کھلا (سامنے) وَّيَوْمَ : اور جس دن لَا يَسْبِتُوْنَ : سبت نہ ہوتا لَا تَاْتِيْهِمْ : وہ نہ آتی تھیں كَذٰلِكَ : اسی طرح نَبْلُوْهُمْ : ہم انہیں آزماتے تھے بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ نافرمانی کرتے تھے
اور اے پیغمبر اسلام ! بنی اسرائیل سے اس شہر کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے واقعہ تھا اور جہاں سبت کے دن لوگ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد سے باہر ہوجاتے تھے ، سبت کے دن ان کی مطلوبہ مچھلیاں پانی پر تیرتی ہوئی ان کے پاس آجاتیں مگر جس دن سبت نہ مناتے نہ آتیں ، اس طرح ہم انہیں آزمائش میں ڈالتے تھے بسبب اس نافرمانی کے جو وہ کیا کرتے تھے
قوم بنی اسرائیل کے ان لوگوں کا ذکر جنہوں نے ہفتہ کے متعلق غلو کیا : 186: دین کے متعلق ایک بہت بڑی گمراہی یہ ہے کہ انسان صداقت و سچائی کے ساتھ اس پر عمل پیرا نہ ہو اور خواہش نفس کو امام بنا کر احکام الٰہی میں مرض کے مطابق حیلہ سازیاں تراشے اور خود فریبی میں مبتلا ہو کر یہ سمجھ بیٹھے کہ من مانی بھی ہوگئی اور دین کا اتباع بھی ہوگیا۔ برائی کو برائی سمجھ کر اس میں مبتلا ہونا اس درجہ شنیع نہیں جتنا کہ برائی کو بھلائی کا رنگ دے کر اور منہیات میں حیلہ سازی کر کے اس کا جواز پیدا کرنا مذموم و مکروہ ہے ۔ حق تعالیٰ کی طرف سے اکثر و بیشتر قوموں پر عذاب اسی قابل نفرت عمل کی وجہ سے ہوتا رہا ہے ۔ یہود نے بھی سبت کے متعلق یہی طریقہ اختیار کیا تھا اور عذاب الٰہی کے مستحق ٹھہرے تھے ۔ سبت کے دن بنی اسرائیل کو شکار کی ممانعت تھی اور پورا دن عبادت کے لئے مخصوص تھا انہوں نے کچھ عرصہ تو اس پر صبر کیا لیکن زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکے اور حیلہ یہ اختیار کیا کہ سبت سے پہلے رات میں دریا کے کنارے گڑھے کھود کر پانی کا بہائو اس طرف کردیتے اور صبح ہوتے مچھلیاں خود بخود ان گڑھوں میں آجاتیں اور بنی اسرائیل شام کو ان کو قبضہ میں کرلیتے اور جب اللہ کے نیک بندے اس حیلہ پر اعتراض کرتے تو بڑے فخر سے کہتے کہ ہم نے سبت کا احترام کو کب شکست کیا ہے جو تم معترض ہوتے ہو مگر اللہ تعالیٰ کے عذاب نے جب ان کو آلیا تب ان کو معلوم ہوا کہ دین میں حیلہ سازی کس قدر خوفناک ہے اور اس جرم کی سزا کیا ہے ۔ اس کے متعلق بھی یہ واضح طور پر معلوم نہیں کہ وہ بستی کون سی تھی ؟ امام زہری (رح) نے اس کا نام طبریہ بتایا ہے اور قتادہ (رح) کے نزدیک ان کا نام مقناہ ہے اور ابن عباس ؓ ، عکرم اور سدی سے مروی ہے کہ یہ بستی ایلہ تھی جو اس وقت عقبہ کے نام سے معروف ہے۔ یہ شہر بحر قلزم کے اس ابنائے کے سرے پر واقع ہے جو دور تک خشکی میں چلی گئی ہے جسے آج کل خلیج عقبہ کہتے ہیں ۔ شرعا شرع کی جمع ہے جس مے معنی اظہار و تبیین کے بھی ہیں ۔ اس لئے اس کے معنی ظاھرۃ علی وجہ الماء یعنی پانی کے اوپر نظر آتی تھیں۔ سبت کے دن مچھلیوں کا پانی کے اوپر آجانا اور دوسرے دنوں میں اس طرح دکھائی نہ دینا یہودیوں کے لئے موجب ابتلاء ہوا اس لئے کہ سبت کے دن اس کو شکار کی ممانعت تھی اور مچھلیوں کے اوپر آنے کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ اس دن ان کا شکار نہ کیا جاتا تھا گویا جانداروں کی عادت میں یہ چیز داخل ہے اگر ان کو کچھ کہا نہ جائے تو وہ بھی مانوس ہوجاتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ وقت کو پہچانتے ہیں اس کی تفصیل سورة بقرہ کی آیت میں گزر چکی ہے ۔
Top