Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 165
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖۤ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ وَ اَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۭ بَئِیْسٍۭ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب نَسُوْا : وہ بھول گئے مَا : جو ذُكِّرُوْا بِهٖٓ : انہیں سمجھائی گئی تھی اَنْجَيْنَا : ہم نے بچا لیا الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَنْهَوْنَ : منع کرتے تھے عَنِ السُّوْٓءِ : برائی سے وَاَخَذْنَا : اور ہم نے پکڑ لیا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا بِعَذَابٍ : عذاب بَئِيْسٍ : برا بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : نافرمانی کرتے تھے
پھر جب ان لوگوں نے وہ تمام نصیحتیں بھلا دیں جو انہیں کی گئی تھیں تو ہمارا مواخذہ نمودار ہوگیا ، ہم نے ان لوگوں کو تو بچالیا جو برائی سے روکتے تھے مگر شرارت کرنے والوں کو ایسے عذاب میں ڈالا کہ محرومی و نامرادی میں مبتلا کرنے والا عذاب تھا ، بسبب ان نافرمانیوں کے جو وہ کیا کرتے تھے
بنی اسرائیل کی اس آبادی پر عذاب مسلط ہوا تو وہی بچ سکے جو روکنے والے تھے : 188: اس معاملہ میں سنت الٰہی یہی ہے کہ جب کوئی قوم یا جماعت بد کرداری اور سر کشی میں مبتلا ہوتی ہے تو اللہ کا قانون یہ ہے کہ ان کو فوراََ ہی گرفت میں نہیں لے لیا جاتا بلکہ ان کو بتدریج مہلت ملتی رہتی ہے کہ اب باز آجائے ، اب سمجھ جائے اور اصلاح حال کرلے لکنف جب وہ قوم باجماعت آمادہ اصلاح نہیں ہوتی اور ان کی سر کشی و بد عملی ایک خاص حد تک پہنچ جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی گرفت کا سخت پنجہ ان کو پکڑ لیتا ہے اور وہ بےیارو مدگار فنا کے گھاٹ اتار دئے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی یہی سنت یہاں کام کرتی رہی اور جب وہ تنبیہات جو انہیں کی گئی تھیں بالکل بھلا بیٹھے اور کسی طرح سوچنے سمجھنے پر راضی نہ ہوئے تو اللہ نے ان کی اس نافرمانی و عہد شکنی کی پاداش میں ان پر ایک سخت عذاب بھیجا جس سے صرف وہ لوگ محفوظ رہے جو لوگ ان کو ان کی برائی سے روکنے والے تھے اور اس برائی کے مرتکب اور ان کے حمایتی یعنی پاپولر لوگ دونوں ہی گروہ دھر لئے گئے اور عذاب کی پکڑ سے ان لوگوں کو بچالیا گیا جو خود برائی سے بچنے والے اور دوسروں کو روکنے والے تھے۔ ب عذاب بئیس بئیس باس سے بھی ہو سکتا ہے جس کے معنی شدت کے ہیں اور بئوس بھی جس کے معنی فقر و فاقہ اور انتہائے محرومی کے ہیں ۔ ہم نے دوسرے معنوں کو ترجیح دی ہے کیونکہ آنے والی آیت میں خاسئین کا لفط آیا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب کی نوعیت ایسی تھی کہ ذلیل و خوار کرنے والا تھا۔
Top