Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 18
قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُوْمًا مَّدْحُوْرًا١ؕ لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِیْنَ
قَالَ : فرمایا اخْرُجْ : نکل جا مِنْهَا : یہاں سے مَذْءُوْمًا : ذلیل مَّدْحُوْرًا : مردود لَمَنْ : البتہ جو تَبِعَكَ : تیرے پیچھے لگا مِنْهُمْ : ان سے لَاَمْلَئَنَّ : ضرور بھردوں گا جَهَنَّمَ : جہنم مِنْكُمْ : تم سے اَجْمَعِيْنَ : سب
اللہ نے فرمایا یہاں سے نکل جا ذلیل اور ٹھکرایا ہوا بنی آدم میں سے جو کوئی تیری پیروی کرے گا تو میں ایسا کروں گا کہ تم سب سے جہنم بھر دوں گا
فرمایا اس حالت میں نکل جا اور ہمارا اعلان بھی سن لے کہ جو تیرا ہوگا اس کے لئے جہنم ہے : 18: انسانوں کو اور ان کے قوائے ملکوتی کو مزید انتباہ کردیا کہ تمہارے اندر ہی کی نافرمانی کی قوتیں تمہیں کچلنے کے لئے ہر وقت چوکنا اور چوکس ہیں وہ کہیں باہر سے نہیں آئیں گی تم خبردار ہوجائو تم جس حال میں بھی ہو اور جہاں بھی ہو وہ طاقتیں بھی تمہارے ساتھ ہیں جن کو تم سے الگ نہیں کیا جاسکتا اگر ان کو الگ کردیا جائے تو انسان انسان نہیں رہتا اگر کوئی اللہ کا رسول ہے تو وہ بھی بہرحال انسان ہے اگر نیک اور صالح ہے تو وہ بھی انسان ہے۔ اگر کوئی حکمران ہے تو وہ بھی انسان ہے کوئی عالم ہے تو وہ بھی انسان ہے اور پھر جو بھی انسان ہے وہ طاقتیں اور قوتیں اس کے اندر ودیعت ہیں۔ وہ اس کو برائی پر آمادہ کریں گی۔ پھر انبیاء ورسل (علیہ السلام) کی حفاظت تو ایک مخصوص طریقہ رسالت ونبوت سے کردی گئی ہے یہی وجہ ان کی وہ طاقتیں اور قوتیں ان کی فرمانبردار ہوگئیں یعنی فرمانبرداری پر مجبور ہوگئیں اس لئے کہ ان کی جسمانی ساخت ہی میں وہ اس طرح ودیعت کی گئی تھیں کہ وہ اپنی بھر پور طاقت کے ابھر ہی نہ سکتی تھیں کہ وہ معصوم عن الخطا پیدا کئے گئے تھے لیکن ان کی صحبت اور ان کی تعلیم کے اثر سے بھی بہت سے لوگ ہوں گے جن پر تیرا یہ جادو نہیں چل سکے گا جس کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا کہ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ (الحجر 15 : 42) ” بلاشبہ جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا۔ “ اور اس بات کا اعتراف گمراہ کرنے والی قوتوں یعنی خود ابلیس کو بھی ہے۔ چناچہ اس نے اس طرح اعتراف کیا کہ : وَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ0039 اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ 0040 ” اور میں ان سب کو بہکادوں گا سوائے تیرے ان بندوں کے جنہیں ان میں سے تو نے خالص کرلیا ہے۔ “ فرمایا اس حالت پر تو نکل جا کیونکہ مشیت ایزدی نے اس کو اسی حالت کے لئے پیدا کیا تھا ” مَذْءُوْمًا مَّدْحُوْرًا 1ؕ“ مذموم یعنی مذمت کیا گیا ، راندا ہوا یا دور کردیا گیا۔ ان لفظوں نے اس کی فطرت کو مزید اجاگر کردیا اور اتنا صاف اور واضح بیان دیا کہ جس سے صاف اور واضح بیان ممکن نہیں تھا۔ غور کرو کہ برائی اور اس کا مظہر شیطان کس طرح مذمت کئے گئے اور راندے ہوئے ہیں کہ آج تک دنیا میں جتنے برے آئے ان میں سے کسی ایک برے نے بھی برائی کو اچھا نہیں کہا۔ کوئی جھوٹ بولنے والا جھوٹ کو اچھا کہتا ہے ؟ کوئی زانی زنا کو اچھا کہتا ہے ، کوئی بےحیاء بےحیائی کو اچھا کہتا ہے ؟ کوئی ڈاکہ زنی کو اچھا کہتا ہوا آپ نے نہیں سنا ہوگا اور یقیناً نہیں سنیں گے۔ معلوم ہوا کہ آج بھی شیطان جس چیز کی طرف دعوت دیتا ہے فطرت انسانی ان دونوں کو یعنی اس برائی کو اور برائی پر آمادہ کرنے والے کو دھکے دیتی ہے لیکن اس کے باوجود انسان اس کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ چیز خود بخود اس کی وضاحت کر رہی ہے کہ انسان سے اس برائی کا ارتکاب کرانے والا کوئی خارج از وجود نہیں بلکہ اس کے اندر ہی اس کا یہ دشمن موجود ہے اور اس سے اس برائی کا ارتکاب کرانے والا کوئی خارج از وجود نہیں بلکہ اس کے اندر ہی اس کا یہ دشمن موجود ہے اور اس کی تفہیم کرانے کے لئے نیز اس کی انسانیت کے احترام میں اس کو اس پیرایہ میں بیان کیا گیا تاکہ وہ اپنے اس اندر کے دشمن کو پہچانے اور اس کو کہا ماننے کی بجائے اس کو اپنا مطیع بنائے اور کم از کم اس کی کوشش ضرور کرتا رہے اور جب وہ دائو لگا جائے تو اس کی مذمت کرے اور اس کے پیدا کرنے والے یعنی اللہ سے اس کے شر سے بچتے رہنے کی درخواست کرے اور یہی بات اس کے لئے انشاء اللہ نافع ثابت ہوگی۔ اس کے بعد اب اس مذموم طاقت یعنی ابلیس کا آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ کے ورغلانہ کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
Top