Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 180
وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا١۪ وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآئِهٖ١ؕ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے الْاَسْمَآءُ : نام (جمع) الْحُسْنٰى : اچھے فَادْعُوْهُ : پس اس کو پکارو بِهَا : ان سے وَذَرُوا : اور چھوڑ دو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُلْحِدُوْنَ : کج روی کرتے ہیں فِيْٓ اَسْمَآئِهٖ : اس کے نام سَيُجْزَوْنَ : عنقریب وہ بدلہ پائیں گے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
اور اللہ کے لیے حسن و خوبی کے نام ہیں سو تم انہی ناموں سے اسے پکارو اور جو لوگ اس کے ناموں میں کج اندیشیاں کرتے ہیں یعنی ایسی صفتیں گھڑتے ہیں تو تم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو وہ وقت دور نہیں کہ اپنے کیے کا بدلہ پا لیں گے
اللہ تعالیٰ کے سب نام ہی اچھے ہیں جو کتاب و سنت میں بیان ہوئے ہیں : 204: گزشتہ آیات میں اہل جہنم کا ذکر تھا کہ وہ کون لوگ ہیں ؟ جس کا جواب یہ دیا گیا تھا کہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی عقل و ہو اس کو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کے دیکھنے ، سننے اور سمجھنے سوچنے میں صرف نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہوگیا کہ وہ خداداد عقل وبصیرت کو ضائع کر کے ذکر اللہ کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح و فلاح سے غافل ہوگئے اور جانوروں سے زیادہ گمراہی اور بےوقوفی میں مبتلا ہوگئے ۔ زیر نظر آیت میں ان لوگوں کی اس گمراہی کا علاج بتایا گیا ہے کہ اس بیماری کا علاج اللہ تعالیٰ سے دعا اور اللہ کے ذکر کی کثرت سے ہی ممکن ہے ۔ اس لئے کہ وہ سب اچھی تعریفوں کے قابل ہے ۔ قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی صفتوں کا جو تصور ہم میں پیدا کرنا چاہا ہے وہ سر تا سر حسن و خوبی کا تصور ہے ۔ چناچہ وہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفتوں کو حسنیٰ قرار دیتا ہے یعنی خوبی و جمال کی صفتیں ۔ رہی یہ بات کہ وہ صفتیں کیا کیا ہیں ؟ قرآن کریم نے اکژ جگہ یہ بیان کی ہیں جن کو لوگوں نے شمار کر کے 99 نکالیں ہیں اور ان میں سے ایک ایک کے معانی پر غور کرو گے تو معلوم ہوجائے گا کہ قرآن کریم کا تصور کس درجہ بلند اور کامل ہے ۔ صرف ان صفات کے معنی پر تدبر کر کے ہم کائنات ہستی کے بیشمار اسرار و حقائق کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ یہاں جو کچھ ہے انہی صفات کا ظہور ہے ۔ رہی یہ بات کہ الحاد فی الاسماء کیا ہے ؟ لغت میں الحاد کے معنی سیدھی راہ سے منہ موڑنا ہے اس لیے الحاد یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو ایسے نام دئے جائیں جو اس کے مرتبے سے فروتر ہوں اور اس کے ادب کے منافی ہوں مثلا اللہ تعالیٰ ( کریم) ہے اس نسبت سے اس کو سخی کہ دینا ۔ اللہ تعالیٰ نور ہے اس نسبت سے اس کو ابیض کہنا اور اسی طرح اللہ تعالیٰ (شافی ) ہے اس نسبت سے اس کو طیب کہنا اور دوسری صورت الحاد یہ ہے کہ جو نام قرآن و سنت سے ثابت ہیں ان میں کسی نام کو نامناسب سمجھ کر چھوڑ دینا اور اس نام سے اللہ کو پکارنے سے منع کرنا جیسے کفار نے رحمٰن کے نام سے اللہ تعالیٰ کو پکارنا پسند نہیں کیا ۔ تیسری صورت الحاد کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مخصوص ناموں کو کسی دوسرے شخص کے لئے استعمال کرنا ۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ اسمائے حسنیٰ میں سے بعض نام ایسے بھی ہیں جن کو قرآن و حدیث میں دوسرے لوگوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور بعض وہ ہیں جن کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کے لئے استعمال کرنا قرآن و سنت سے ثابت نہیں تو جن کا استعمال غرل اللہ کے لئے قرآن و سنت سے ثابت ہے وہ نام تو اوروں کے لئے بولے جاسکتے ہیں جیسے رحیم ، رشید ، علی ، کریم اور عزیز وغیرہ لیکن جن ناموں کو غیر اللہ کے لئے بولا جانا ثابت نہیں وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مخصوص ہیں ان کو غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا الحاد میں داخل اور ناجائز و حرام ہے مثلا رحمٰن ، سبحان ، رزاق ، خالق ، غفار اور قدوس وغیرہ پھر ان مخصوص ناموں کو غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا مناسب نہیں ۔ ہاں بےخیالی سے کسی عبد الرحمٰن نام کے آدمی کو رحمٰن ہی کے نام سے بلایا حالانکہ اس طرح بلانا صحیح نہیں۔ اگر فی الواقع اس کو رحمٰن سمجھتے ہوئے پکارا تو یہ کفر ہوگا لیکن بےخیالی یا بےاحتیاطی سے بلایا تو بھی یہ اچھا نہ کیا اگرچہ اس کو کفر نہ کہیں گے ۔ اسی طرح عبد الخالق ، عبد الرزاق ، عبد الرحمان ، عبد الغفار کو خالق ، رزاق ، رحمان اور غفار کہنا بھی صحیح نہیں ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے 99 نام ہیں جو شخص ان کو محفوظ کرلے وہ جنت میں داخل ہوگا اور یہ ننانوے نام ترمذی (رح) اور حاکم نے تفصیل کے ساتھ بتائے ہیں اور ہم انشاء اللہ ان کی تفصیل سورة الحشر میں بیان کریں گے ۔
Top