Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 190
فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَآءَ فِیْمَاۤ اٰتٰىهُمَا١ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اٰتٰىهُمَا : اس نے دیا انہیں صَالِحًا : صالح بچہ جَعَلَا : ان دونوں نے ٹھہرائے لَهٗ : اس کے شُرَكَآءَ : شریک فِيْمَآ : اس میں جو اٰتٰىهُمَا : انہیں دیا فَتَعٰلَى : سو برتر اللّٰهُ : اللہ عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
پھر جب اللہ نے انہیں ایک تندرست فرزند دے دیا تو جو چیز اللہ نے دی وہی اس میں دوسری ہستیوں کو شریک ٹھہرانے لگے سو یہ لوگ جیسی کچھ شرک کی باتیں کرتے ہیں اس سے اللہ کی ذات بہت بلند ہے
اللہ کے عطا کردہ فرزند میں دوسروں کو شریک کرنے لگے : 218: جب اللہ نے ان دونوں یعنی ہونے والے (ولد ) کے بننے والے (والد ) اور (والدہ ) کی دعائیں سن لیں اور ایک خوبصورت بچہ یعنی (ولد ) عطا کردیا تو اب شکر گزاری کی بجائے شرک میں مبتلا ہوگئے اور یہ (ولد ) ہی ان کے شرک میں مبتلا ہونے کا باعث بن گیا ۔ جس کی مختلف صورتیں ہیں کبھی تو عقیدہ فاسد ہوگیا اور یوں سمجھ بیٹھے کی یہ بیٹا فلاں ولی یا بزرگ نے دیا ہے کبھی یہ ہوا کہ عملا اس بچہ کو کسی زندہ یا مردہ بزرگ کی طرف منسوب کرنے لگے اور ان کے نام کی نذر و نیاز تقسیم کرنے لگے یا بچہ کو ان کے سامنے لے جا کر پیش کردیا اور ان کے نام کے ( سلام ) بھرنے لگے اور کبھی بچہ کا نام رکھنے مین مشرکانہ نام پسند کیا جیسے عبد اللہ کی بجائے عبد العزیٰ ، عبد الشمس اور اللہ دتہ کی بجائے پیراں دتہ اور گوراں دتہ اور اللہ بخش کی بجائے پیر بخش وغیرہ نام رکھنے لگے ۔ اس طرح کے شرک کی ان گنت صورتیں آج بھی قوم مسلم کے افراد میں پائی جاتی ہیں ۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ ایک عام انسانی کمزوری ہے کہ وہ اصل کی ضرورت اور احتیاج کے وقت تو اپنے رب ہی کی طرف متوجہ ہوتا ہے لیکن جب وہ احتیاج اور ضرورت اس کی پوری ہوجاتی ہے تو اس کو دوسرے اسباب و وسائل کو کرشمہ قرار دینے لگتا ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس کا تجربہ ہر شخص خود اپنے اندر کرسکتا ہے ۔ اس طرح انسان کی عام حالت اس جگہ بیان ہوئی ہے ۔ ان آیات میں آدم و حوا (علیہ السلام) کا ذکر کر کے ان کو شرک میں مبتلا ہونے کی جو روایات تفاسیر میں جگہ پاگئی ہیں وہ سب کی سب درجہ اعتبار سے ساقط ہیں ان پر اعتماد کرنا کسی حال میں درست نہیں ۔ فرمایا اوپر مذکورہ شرک کی صورتوں میں سے جس صورت کو بھی اختیار کیا اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بہت بلند ہے ۔
Top