Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 25
قَالَ فِیْهَا تَحْیَوْنَ وَ فِیْهَا تَمُوْتُوْنَ وَ مِنْهَا تُخْرَجُوْنَ۠   ۧ
قَالَ : فرمایا فِيْهَا : اس میں تَحْيَوْنَ : تم جیو گے وَفِيْهَا : اور اس میں تَمُوْتُوْنَ : تم مروگے وَمِنْهَا : اور اس سے تُخْرَجُوْنَ : تم نکالے جاؤگے
اور فرمایا تم اس میں جیو گے اس میں مرو گے پھر اس سے (اس کے بعد) نکالے جاؤ گے
اس ارض الٰہی میں تمہارا جینا اور مرنا ہے اور وہیں سے تم کو نکالا جائے گا : 28: یعنی تمہارا وطن اصل یہی زمین ہے اور اسی کے لئے تم کو پیدا کیا گیا ہے ہاں ! اس کائنات کے بعد نیا نظام قائم ہوگا اور پھر تم کو اس زمین سے نکال لیا جائے گا اور جب تک یہ نظام قائم ہے اس وقت تک آدم وابلیس دو متحارب فریقوں ہی کی حیثیت سے رہو گے اور اس طرح دو مخالف طاقتوں کے اس مجموعہ کو جو زندگی دی گئی اور جو نظام ان کی ذریت کے لیے طے کیا گیا اس کے مطابق ان کی ہار جیت ہوتی رہے گی ” اس میں زندہ رہو گے اور اس میں مرو گے “ یہ ان مراحل کا بیان ہے جن سے اس دنیا میں آدم اور اولاد آدم کو گزرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اب ان تمام مراحل سے گزر کر تم کو لوٹ کر یہاں آنا ہے اس وقت ہم تم کو بتائیں گے کہ تم نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے اور اس میدان مقابلہ سے تم سروخرو ہو کر لوٹے ہو یا ناکام و نامراد ہو کر۔ آیت 11 سے آیت 25 تک کی آیات میں حضرت آدم (علیہ السلام) کا قصہ بیان ہوا ہے اس کا بیشتر حصہ اس سے قبل سورة البقرہ کی آیت 30 تا 38 میں بیان ہوا اور ان آیات میں ہم نے اس قصہ کے سارے پہلوئوں پر کچھ نہ کچھ بیان کیا ہے ازیں بعد قرآن کریم میں جہاں جہاں اس سرگزشت کو بیان کیا گیا اس کو ایک جگہ جمع کر کے اس کا بامحاورہ ترجمہ اور مفہوم بھی بیان کیا ہے اس طرح یہ مضمون بیسیوں صفحات میں پھیلا ہوا ہے وہاں سے ملاحظہ فرما لیں۔ اس ساری سرگزشت کا ماحصل ہمارے نزدیک فطرت انسانی کا بیان ہے اور اس طرح فطرت انسانی کی مختلف قوتوں کے الگ الگ نام رکھ کر ان کے سارے کاموں پر بحث کی گئی ہے تاکہ ہر ایک انسان خواہ عالم ہو یا جاہل اس سے برابر مسیدان ہو سکے اور اپنی پوری حقیقت کو سمجھ سکے جس طرح علم الابدان والے کسی ایک جسم کے ہر ایک اعضا اور اس کے عمل سے بحث کر کے اور ہر ایک عضو اور اس کے عمل کا الگ الگ نام رکھ کر پورے جسم سے بحث کرتے ہیں تاکہ معالج جسم کی پوری حقیقت سے آگاہ ہوجائے۔ اسی طرح اس سے بہت پہلے انسانی پیدا ئش کے ساتھ ہی اس کی ساری ماہیت وکیفیت سے بحث کر کے اس آسان پیرایہ میں سمجھادیا کہ اس الٰہی کارخانہ عالم صغیر کی کوئی بات بھی پوشدسہ نہ رہی لیکن افسوس کہ ہم نے اس حقیقت کو بھلا کر محض ایک چڑیا یا کوے کی کہانی کی طرح اس کو بیان کیا اور سمجھا۔ مختصر یہ کہ ان آیات کریمات میں اس قصہ سے جن اہم حقیقتوں پر روشنی پڑتی ہے ان کا مختصر خلاصہ ایک بار پھر نظر ناظرین کیا جاتا ہے لیکن اس میں بھی فطری قوتوں کے جو نام معروف ہیں انہی ناموں سے ان کو یاد کیا گیا ہے تاکہ بات آسانی سے سمجھی جاسکے۔ 1۔ فطرت انسانی کے اندر شرم وحیاء کا جذبہ ودیعت کردیا گیا ہے اور اس کا اولین مظہر وہ شرم ہے جو اپنے جسم کے مخصوص حصوں کو دوسروں کے سامنے کھولنے میں آدمی کو فطرتاً محسوس ہوتی ہے۔ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ یہ شرم انسان کے اندر تہذیب کے ارتقاء سے مصنوعی طور پر پیدا نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ اکتسابی چیز ہے بلکہ یقیناً یہ فطری چیز ہے جو روز اول سے انسان کی ساخت میں رکھ دی گئی ہے۔ 2۔ انسان کے سارے کمزور پہلوئوں کی ابتداء جسم کے ان مخصوص حصوں سے ہوتی ہے اسی لئے شیطان کی پہلی چال جو اس نے انسان کو فطرت انسان کی سدئھی راہ سے ہٹانے کے لئے چلی وہ بھی یہی تھی کہ اس نے اس جذبہ شرم وحیاء پر ضرب لگائی اور جس پھل کا ذائقہ معلوم کرنے سے اس کو منع کیا گیا تھا اس ذائقے کے مناقب اس نے انسان کے سامنے بیان کرنے شروع کر دئیے اور ان میں ایسی چاشنی بھری کہ جب تک اس نے اس کو چکھ نہ لیا اس کو نہ چھوڑا۔ اس طرح اس نے جو پہلی ضرب لگائی وہ اسی فصیل پر تھی جو شرم وحیاء کی صورت میں اللہ نے انسانی فطرت میں رکھی تھی اور شیطانی نسل کی یہ روش آج تک نسل انسانی کے ساتھ جوں کی توں قائم ہے اور جوں جوں وقت گزرتا گیا وہ اس کو مزید خوشنما بنا کر پیش کرتا رہا اور اس کی ان چالوں میں اب مزید ہی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ 3۔ انسان کی یہ فطرت مسخ ہونے کے باوجود آج تک کچھ نہ کچھ باقی ہے کہ وہ برائی کی کھلی دعوت کو کم ہی قبول کرتا ہے سوائے اس کے کہ وہ رواج میں آجائے اور عموماً اسے جال میں پھانسنے کے لئے ہر داعی شر کو خیر ہی کے بھیس میں آنا پڑتا ہے۔ دنیا کے شریر سے شریر لوگوں نے بھی مصلح کا لبادہ پہن کر ہی لوگوں کو راہ راست سے ہٹایا ہے۔ 4۔ انسان کے اندر حیات جاوداں حاصل کرنے کی ایک فطری پیاس موجود ہے اور شیطان اسے فریب دینے میں اس راہ سے بھی حملہ آور ہوتا رہتا ہے اور اس کے سامنے ایسی امیدیں رکھتا ہے کہ اس کو اپنی بدلتی ہوئی حالت یاد ہی نہیں رہتی۔ 5۔ لوگوں میں جو اس طرح مشہور ہے کہ شیطان پہلے حضرت حوا (علیہما السلام) کو دام فریب میں گرفتار کیا اور پھر اس کو آدم (علیہ السلام) کو پھانسنے کے لئے آلہ کار بنایا۔ قرآن کریم اس کی تردید کرتا ہے۔ غالباً یہ یہود ونصاری کا نظریہ ہے جو ہمارے ہاں کسی طریقہ سے گھس گیا ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ اس نے دونوں کو فریب دیا اور وہ دونوں ہی اس کے دام فریب میں آگئے اور یہ گویا فطرت انسانی کا بیان ہے جس کو ان کا نام دیا گیا۔ 6۔ شجر ممنوعہ نے یہ تصور دیا کہ انسان کیلئے کچھ چیزیں حلال اور کچھ حرام کی گئیں اور اس کی فطرت میں یہ بات رکھ دی کہ وہ حلال اور حرام کا کھوج لگائے کہ حلال ہونے والی کیوں حلال اور حرام ہونے والی کیوں حرام ہیں ؟ شیطان اس راہ سے بھی انسان پر حملہ آور ہوتا ہے کہ اس کو اس کھوج لگانے میں راہ سے بہکا دیتا ہے اور اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام کردہ چیزوں کو حلال کر دکھاتا ہے اور اس معاملہ میں انسان کو وہ اکثر بھلانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی ہر کوشش جو اس نے ابو البشر کے خلاف استعمال کی آج تک استعمال کرتا آرہا ہے اور قیامت تک کرتا رہے گا۔ ذریت شیطان اس بھول میں ذریت آدم کو مبتلا کرتی رہے گی۔ 7۔ بھول چوک انسان کی فطرت میں داخل ہے اور شیطان بھی اس فطری کمزوری سے دوسری فطری کمزوریوں کی طرح فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ جو انسان بھول جانے کے بعد اعتراف کرلے اس کے درجات پہلے سے بھی بلند ہوجاتے ہیں اور جو اعتراف نہ کرے وہ شیطان کا ساتھی بن کر رہ جاتا ہے اور اس طرح وہ انسان نظر آنے کے باوجود انسانیت سے عاری ہوجاتا ہے اور اگر وہ اس حرکت سے باز نہ آئے تو انجام کار دوزخ میں جھونک دیا جائے گا۔ 8۔ جو شخص غرور وتکبر کرتا ہے شیطان اس کا یقیناً ممدو معاون ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد اس سے اٹھالی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ شیطان کا بندہ بن کر رہ جاتا ہے اور اس کا انجام وہی ہوگا جو خود شیطان کا ہوگا۔ 9۔ خالص شیطانی راہ یہ ہے کہ وہ بندگی سے منہ موڑے اور اللہ کے مقابلہ میں سرکشی کرے متنبہ کئے جانے کے باوجود پورے استکبار کے ساتھ اپنے باغیانہ طرز عمل پر نظر ثانی کے لئے تیار نہ ہو اور جو لوگ اطاعت کی راہ چل رہے ہوں ان کو بھی بےراہ کرنے کی پوری کوشش کرے۔ 10۔ جو راہ انسان کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ اول تو وہ شیطانی اغوا کی مزاحمت کرے اور اپنے اس ابدی دشمن کی چالوں کو ہر ممکن سمجھنے کی کوشش کرے اور ان چالوں سے بچنے کے لئے ہر وقت چوکنا رہے لیکن اگر کبھی پائوں میں لغزش آہی جائے تو اپنی غلطی کا احساس کرتے ہی ندامت و شرمساری کے ساتھ فوراً اپنے رب کریم کی طرف پلٹے اور خلوص نیت کے ساتھ اپنے قصور کی معافی مانگ لے۔ 11۔ اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ رکھے کہ وہ اس کے اس قصور کو معاف کر دے گا یہی وہ سبق ہے جو اس قصہ سے اللہ تعالیٰ انسانوں کو دینا چاہتا ہے اور یقیناً خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس قصہ سے یہ سبق حاصل کرلیں اور اگر وہ بھول جائیں تو فوراً تائب ہوں۔ اس میں دیر نہ لگائیں کہ اس راہ کی ہر دیر نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو یہ اجمالی سبق یاد رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
Top