Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 26
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا١ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى١ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم قَدْ اَنْزَلْنَا : ہم نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر لِبَاسًا : لباس يُّوَارِيْ : ڈھانکے سَوْاٰتِكُمْ : تمہارے ستر وَرِيْشًا : اور زینت وَلِبَاسُ : اور لباس التَّقْوٰى : پرہیزگاری ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اٰيٰتِ : نشانیاں اللّٰهِ : اللہ لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : وہ غور کریں
اے اولاد آدم ! ہم نے تمہارے لیے ایسا لباس مہیا کردیا ہے جو جسم کی ستر پوشی کرتا ہے اور ایسی چیزیں بھی جو زیب وزینت کا ذریعہ ہیں نیز تمہیں پرہیزگاری کی راہ دکھا دی کہ تمام لباسوں سے بہتر لباس ہے ، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے تاکہ لوگ نصیحت پذیر ہوں
اے اولاد آدم ! ہم نے تمہارا لباس نازل کردیا جو ستر پوشی کے ساتھ زیب وزینت بھی ہے : 29: آدم وحوا (علیہما السلام) کا ذکر جو کہ دراصل فطرت انسانی کا بیان تھا اس سے مضمون کو نسل انسانی کی طرف منتقل کردیا اور فرمایا کہ اے اولاد آدم ! ہم نے تمہارے لئے ایسا لباس مہیا کردیا ہے جو جسم کی ستر پوشی کرتا ہے اور زیب وزینت کا کام بھی دیتا ہے۔ “ اس طرح اہل عرب کے سامنے خود ان کی اپنی زندگی کے اندر شیطانی اغوا کے ایک نمایاں ترین اثر کی نشان دہی فرما دی کہ بعض قبائل طواف کعبہ کے وقت اپنا لباس اتار دیتے۔ مرد اور عورتیں مادر زاد برہنہ ہو کر طواف بیت اللہ کرتے اور اس کو کمال تقویٰ خیال کرتے تھے۔ یہ تو قرآن کریم کے زمانہ نزول کی بات ہے لیکن یہ صرف عربوں ہی میں رواج نہیں تھا دنیا کی اکثر قومیں اپنی مذہبی رسوم و عبادات کی ادائیگی کے وقت شرم وحیاء کی چادر اتار پھینکنے کی عادی ہیں۔ ہر دوار اور بنارس میں اشنان کرنے والوں کے متعلق کچھ معلوم ہے کہ وہاں عریانی اور برہنگی کا کتنا شرمناک مظاہرہ کیا جاتا ہے ؟ آخر یہ سارے انسان اولاد آدم ہی تو ہیں۔ ان سب کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تم نے اپنے رب کی راہنمائی سے بےنیاز ہو کر اور اس کے رسولوں کی دعوت سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کردیا ہے اور اس نے تمہیں انسانی فطرت کے راستے سے ہٹا کر اس بےحیائی میں مبتلا کردیا جس میں وہ تمہارے پہلے باپ اور ماں کو مبتلا کرنا چاہتا تھا اس پر غور کرو تو یہ حقیقت تم پر کھل جائے کہ رسولوں کی راہنمائی کے بغیر تم اپنی فطرت کے ابتدائی مطالبات تک کو نہ سمجھ سکتے ہو اور نہ پورا کرسکتے ہو۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لباس انسان کے لئے ایک مصنوعی چیز نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت کا ایک اہم مطالبہ ہے دوسرا یہ کہ اس فطری الہام کی رو سے انسان کے لئے لباس کی اخلاقی ضرورت مقدم ہے یعنی یہ کہ وہ اپنی شرمگاہ کو ڈھانکے اور اس کی طبعی ضرورت موخر ہے یینم یہ کہ اس کا لباس اس کے لئے جسم کی آرائش اور موسمی اثرات بد سے حفاظت کا ذریعہ ہو۔ لیکن آج کیا ہے ؟ کہ ثقات دفن کی کسی محفل میں گرمی پیدا ہی نہیں ہوتی جب تک شرم وحیاء کی ساری قدروں کو پائوں تلے نہ روند ڈالا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں خطاب کسی خاص قوم یا قبیلہ کو نہیں بلکہ لباس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ساری اولاد آدم کو خطاب فرمایا جا رہا ہے اور رہی یہ بات کہ مرد و عورت کے لباس میں کوئی فرق ہے یا نہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت میں عورت کہتے ہی ستر کو ہیں۔ گویا عورت کے لئے سر سے لے کر پائوں تک پوشش میں رہنا ضروری ہے اور محرمات کے لئے اس میں کچھ رعایت بھی ہے اور مرد کے لئے ناف سے گھٹنوں تک کا پردہ لازم قرار دیا گیا ہے اور معذوری و مجبوری الگ چیز ہے تفصیل انشاء اللہ العزیز سورة نور میں آئے گی۔ پرہیز گاری کی راہ بھی انسانی لباس میں شامل ہے بلکہ یہ ایک بہتر لباس ہے : 30: یہ لباس ایک تیسری قسم ہے جس کو پہلی دونوں قسموں سے بھی انسان کے فطری فائدہ کے لئے بہتر اور افضل قرار دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے اولاد آدم (علیہ السلام) کے لئے ایک تیسرا لباس بھی اتارا ہے جس کو ” لباس تقویٰ “ کا نام دیا گیا ہے اور وہ دوسرے لباسوں سے زیادہ بہتر ہے۔ وہ انسان فطری کمزوریوں سے اپنی حفاظت کرتے ہوئے عمل صالح اختیار کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ظاہری لباس انسان کے قابل شرم اعضاء کے لئے پردہ ہے اور اس طرح سردی ، گرمی سے بچنے اور زیب وزینت حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے اس طرح ایک مصنوعی لباس بھی ہے جو انسان کی اخلاقی عیوب اور کمزوریوں کا پردہ ہے اور دائمی تکلیفوں اور مصیبتوں سے نجات کا ذریعہ ہوتا ہے اور اس کو عمل صالح سے تعبیر کیا گیا ہے اس لئے وہ سب سے بہتر لباس قرار دیا گیا ہے۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ موجود ہے کہ ایک بدکار آدمی جو کسی عمل صالح کا پابند نہیں وہ کتنے ہی پردوں میں چھپے لیکن پھر وہ ننگے کا ننگا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ انجام کار وہ رسوا اور ذلیل ہو کر رہتا ہے جس کے متعلق نبی اعظم وآخر ﷺ کا ارشاد گرامی اس طرح ہے کہ ” قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد (a) کی جان ہے جو شخص کوئی بھی عمل لوگوں کی نظروں سے چھپا کر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو اس عمل کی چادر اوڑھا کر اعلان کردیتا ہے یعنی نیک عمل ہوتا ہے تو نیکی کی چادر اور برا عمل ہو تو برائی کی چادر اور وہ سب لوگوں کے سامنے ہوتی ہے اور یہ بھی کہ انسان کا عمل کتنا ہی پوشیدہ ہو اس کے ثمرات وآثار اس کے چہرے اور بدن پر اللہ تعالیٰ ظاہر کردیتا ہے اور اس ارشاد کے بعد آپ نے زیر نظر آیت ” و لباس التقویٰ ذلک خیر “ تلاوت فرمائی (ابن جریر بروایت عثمان غنی ؓ لباس اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں : 31: یہ نشانی انسان وحیوان کا ایک فطری فرق ہے گویا انسان کی فطرت میں لباس کا تقاضا موجود ہے اور حیوان کی فطرت میں نہیں ہاں ! انسان اپنی انسانیت کو مسخ کر کے حیوان کا حیوان ہی رہنا چاہے تو گویا اس نے اللہ تعالیٰ کی فطری نشانی کو مسخ کرنے کا نتیجہ پالیا کہ وہ انسانیت سے نکل کر حیوانیت میں داخل ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے جو انسانیت وحیوانیت میں ایک خاص فرق رکھا تھا اس کو اس جگہ نشانی قرار دیا گیا جو فی الواقع اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے۔ ایک سچے مسلمان کے لئے ان تینوں قسم کے لباسوں میں ملبوس رہنا ضروریات دین میں سے ہے۔ آخر میں ایک بات مزید یاد رہے کہ نبی کریم ﷺ نے نیا لباس پہننے کے وقت یہ دعا پڑھنے کی ہدایت فرمائی : ( الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی کَسَانِی مَا أُوَارِی بِهِ عَوْرَتِی وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِی حَیَاتِی) (ترمذی : جلد دوم : حدیث 1516) ” شکر اس ذات کا جس نے مجھے لباس دیا جس کے ذریعہ میں اپنے ستر کا پردہ کرتا ہوں اور زینت حاصل کرتا ہوں۔ “
Top